Skip to main content

Maan,{Mother| By Junaid Iqbal Baloch




ماں دنیا کی ہر کردار سے بڑ کر ایک عظیم اور نمایاں کردار ہے بےشک دنیا کی کوئی بھی ادکارہ اس کردار کو ادا نہیں کرسکتی کیونکہ یہ وہ واحد کردار ہے جو صرف قربانی اور ممتا سے ہی ادا کی جاسکتی ہے اور ایک ماں سے بڑ کر کوئی بھی اس کردار کو صحیح طرز سے ادا نہیں کرسکتی اس کردار کو ادا کرتے ہوئے میں نے اپنی ماں کو دیکھا ہے میں نے اس جہان میں اور بھی بہت سی مائیں دیکھیے ہیں جب میں بیمار ہوتا تھا تو تکلیف میرے ماں کو مجھ سے زیادہ ہوتی تھی وہ پوری پوری رات میرے سرھانے بیٹھی رہتی تھی اور تسبیح پڑھا کرتی تھی جب وہ اللہ کے سامنے رو کر گڑگڑاتی تھی تو اؐس کی دعا کی پہلی صدا اپنی اولاد کے نام سے ہی شروع ہوتی تھی خود چائے جتنی بھی تکلیف میں کیو نہ ہوتی لیکن کبھی بھی ذکر تک نہ کرتی تھی کے کہیں میری اولاد پریشان نہ ہوجائے میں نے اپنی ماں کو تیز بخار کی حالت میں بھی روٹیاں پکاتی ہوئے دیکھا ہے جب روکنے کی کوشش کی تو ایک ہی جواب ملا میں بخار تو برداشت کرسکتی ہوں مگر اپنی اولاد کی بھوک نہیں حقیقت ہے کے دنیا کا سب سے عظیم اور عالی ظرف انسان ماں ہی ہوتی ہے جس کی برداشت کی کوئی انتہا نہیں جو روزے میں خود تو پیاس سے تڑپ رہی ہوتی تھی مگر اؐس کو اپنی بچوں کی فکر تھی کے اؐن کو تکلیف نہ ہو شام کو جب افطاری کی ساری تیاریاں کر کے بیٹھ جاتی تھی تو اؐس کی چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ ہوتی تھی جو یہ کہہ کر خوش ہوجاتی تھی کے اب میری بیٹھے کا روزہ کھولیں گا خود کو اپنی فکر تک نہیں تھی کے میری بھی روزہ ہے میں نے ماں کی ماتھے سے پسینے آبشار کی طرح گرتے ہوئے دیکھے ہے اور اؐس کو اپنی دوپٹے سے اپنی بچوں کی پسینے پونچھتے ہوئے بھی میں نے دیکھا ہے یہ صرف ایک ماں کی کردار نہیں ہے جو میں بیاں کر رہا ہوں بلکہ دنیا کے تمام ماںوں کا کردار ہیں آج مجھے سمجھ میں آیا کے اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کو کیوں ایک ماں کی محبت سے ہی تشبیہ دی ہے کیونکہ ایک ماں جو محبت کرسکتی وہ دنیا کی اور کسی بھی شے میں آپ کو نہیں مل سکتی ایک ماں جو خود بھوک اور پیاس تو برداشت کرسکتی ہے دردِ اور تکلیف تو برداشت کرسکتی ہے پر اپنی اولاد کی ایک سسکی تک برداشت نہیں کرسکتی یہ ہوتی ہے ماں اور ایک عورت دنیا میں تین کردار نبھا تھی ہے ایک جب وہ چھوٹی بچی ہوتی ہے تو یقین ہر لڑکی اپنی بابا کی شہزادی ہوتی بہت ہی پیار سے اؐس کی پرورش کی جاتی ہے اپنی گھر میں جتنی محبت اؐس کو اپنی ماں باپ سے ملتی ہے اتنی ہی پیار اور محبت کی امید لیکر وہ ایک دن اس گھر سے رخصت ہوکر اپنی شوہر کی گھر آجاتی ہے اور اپنی سسرال والوں میں اپنی ماں باپ بہن اور بھائیوں کی محبت تلاش کرنے لگتی ہے لیکن بہت کم ایسے عالی ظرف انسان ہوتے ہے جو دوسروں کی بیٹی کو محبت دینے پر اور اپنی بیٹی ماننے پر راضی ہو جاتے ہیں لیکن اکثر اوقات ان پر پہاڑ ٹوٹنے کا سلسلہ ان کے شادی کے تیسرے دن سے ہی شروع ہوتی ہے جب گھر میں وہ خود کو ایک بیٹی کی حیثیت سے دیکھنا چاہتی تھی لیکن سسرال والے اس کو ایک نوکرانی کی حثیت دینے لگتے ہے لیکن اؐس کو اپنی بابا کی شہزادی ہونے کا حق ادا کرنی ہے اپنی بابا کی عالی تربیت کا ثبوت تو دینا ہے اور اپنی ماں کی نصیحتوں کا بھی خیال رکھنی ہوتی ہے اور اپنی والدین کی عزت کا بھی تو خیال رکھنا ہے یہ اؐس کی زندگی کا وہ اسٹیج ہوتی ہے کے جہاں سے اؐس کی زندگی اؐس کے لیے ایک استاد کا کردار ادا کرنے لگتی ہے جو اؐس کو برداشت ہمت اور حوصلے کی ایک پہاڑ بنا دیتی ہے اؐس کی اندر عاجزی اور صبر و برداشت کا ایک ایسی شمعِ روشن کردیتی ہے کی وہ پھر پوری زندگی اؐس روشنی سے اپنی بچوں کی زندگیوں کو روشن کرتی رہتی ہے جب ساری سسرال والے ایک طرف ہونگے تو اؐسی وقت اؐس کی زندگی میں ایک واحد امید کی کران صرف اور صرف اؐس کو اپنی شوہر کی روپ میں ملتا ہے جو کبھی اؐس کی ساتھ مسکرا کر دو بول ہی بول تھا ہے اور وہ ساری دن کی درد تکلیف اور اذیت بھول ہی جاتی ہے پھر جب وہ ایک ماں بن جاتی ہے تو اؐس کی زندگی مکمل ہو جاتی ہے پھر وہ اپنا سب کچھ اؐس بچے یا بچی پر نچاور کر دیتی ہے اپنی خوشی اپنی خواہشات اپنی حساسات سب کچھ ختم کر کے بس ایک ماں ہی بن جاتی ہے اور ماں کیا ہوتی ہے یہ تو آپ سب بہتر جانتے ہیں کیونکہ لفظ ''ماں'' کو بیاں کرنا دنیا کے کسی بھی انسان کی بس کی بات نہیں ہے دنیا کے کسی بھی قلم میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کے وہ ایک ماں کو بیاں کرسکے ماں وہ واحد کردار ہے جو دنیا کی تمام کرداروں سے افضل اور بلند ہے کیونکہ ماں کے کردار کے بارے میں جوشخص لکھنا شروع کر دیتا ہے اؐس کی آنسو ٹپکنے لگتے ہیں اور اؐس کی قلم جواب دینے لگتا ہے کیونکہ یہ صحیح لفظوں میں محبت کی ہی نشاندہی کر رہا ہوتا جو بس ماں کے نام سے لکھا جاتا ہے آخر میں بس اتنا ہی کہونگا کے ماں سے بڑ کر دنیا کی کوئی بھی دولت ہو یا کوئی بھی طاقت ہو آپ کو اتنی مسرت خوشی اور محبت نہیں دے سکتی کے جتنی ماں کی وجود سے ملتی ہے 



Comments

Popular posts from this blog

Abb Chalakty Hoe Sagir Nhin Dakhy Jaty Tooba Ky Bad Ya Manzir Nhin Dakhy Jaty Urdu Ghazal By Ali Ahmed Jalili

  اب چھلکتے ہوئے ساغر نہیں دیکھے جاتے توبہ کے بعد یہ منظر نہیں دیکھے جاتے مست کر کے مجھے اوروں کو لگا منہ ساقی یہ کرم ہوش میں رہ کر نہیں دیکھے جاتے ساتھ ہر ایک کو اس راہ میں چلنا ہوگا عشق میں رہزن و رہبر نہیں دیکھے جاتے ہم نے دیکھا ہے زمانے کا بدلنا لیکن ان کے بدلے ہوئے تیور نہیں دیکھے جاتے علی احمد جلیلی  

Mat Qatal Kro Awazoon Ko Poem By Ahmad Faraz | Raaz Ki Batain | Khuwab Naak Afsane

مت قتل کرو آوازوں کو تم اپنے عقیدوں کے نیزے ہر دل میں اتارے جاتے ہو ہم لوگ محبت والے ہیں تم خنجر کیوں لہراتے ہو اس شہر میں نغمے بہنے دو بستی میں ہمیں بھی رہنے دو ہم پالنہار ہیں پھولوں کے ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں تم کس کا لہو پینے آئے ہو ہم پیار سکھانے والے ہیں اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے جب حرف یہاں مر جائے گا جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی جب شعر سفر کر جائے گا جب قتل ہوا سر سازوں کا جب کال پڑا آوازوں کا جب شہر کھنڈر بن جائے گا پھر کس پہ سنگ اٹھاؤ گے اپنے چہرے آئینوں میں جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے (احمد فراز)

Lyjati Hy Us Simat Hamy Gardish Doran Ay Dost Kharabat Sy Kia Kam Hamara Urdu Ghazal By Syed Abdul Hameed Adam

لے جاتی ہے اُس سمت ہمیں گردشِ دوراں اے دوست، خرابات سے کیا کام ہمارا کر لیتے ہیں تخلیق کوئی وجہِ اذیّت بھاتا نہیں خُود ہم کو بھی آرام ہمارا اے گردشِ دوراں یہ کوئی سوچ کی رُت ہے کمبخت ابھی دَور میں ہے جام ہمارا اِس بار تو آیا تھا اِدھر قاصدِ جاں خُود سرکار کو پہنچا نہیں پیغام ہمارا پہنچائی ہے تکلیف بہت پہلے ہی تُجھ کو اے راہ نُما، ہاتھ نہ اب تھام ہمارا اے قافلہء ہوش گَنوا وقت نہ اپنا پڑتا نہیں کُچھ ٹھیک ابھی گام ہمارا گُل نوحہ کُناں اور صنم دَست بہ سِینہ اللہُ غنی! لمحہء اَنجام ہمارا     سیّد عبدالحمید عدم