Skip to main content

Posts

Showing posts from August, 2022

Paraya Dhann Poem By Munazza Zulfiqar

  پرایا دھن ایک لڑکی تھی نخریلی سی لاڈوں میں تھی پلی بڑھی پیدا ہوتے ہی سینے سے اس کو باپ نے لگایا تھا چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہوتی تھی ناراض کبھی گلاب لا کر کبھی چاکلیٹ سے بابا نے اسے منایا تھا کھیلتے کودتے جو گرتی تو جھک کر کندھوں پر اسے بٹھایا تھا چوڑیاں بھی پہنائی تھیں گھگھرا بھی دلایا تھا پلیٹ بھری تھی بچوں کی خود ہمیشہ کم کھایا تھا اپنی نیند بیچی تھی بڑے سکول میں پڑھایا تھا ایک آنٹی ہیں جو کہتی ہیں لڑکی ہو اک سمارٹ سی گوری چٹی ہو گال گلابی ہوں قد ہو لمبا سا اور ناک بھی تیکھی ہو آنکھ ہو ہرنی سی اور ایم ۔ اے پاس ہو لڑکی ایسی ہو جو فرض شناس ہو کھاتا پیتا ہو گھرانا اس کا صوفہ بیڈ تو ہوتا ہے لیکن جہیز میں اک گاڑی ہو میرے لئیے ہوں بھاری جھمکے ساتھ میں ایک ڈیسنٹ ساڑھی ہو جگر کا ٹکڑا ہے جوان اب ذہن میں ہے گمان اب دل ہے میرا پریشان اب اچھا میں جاتا ہوں پینشن بھی نکلواتا ہوں میری رونق میری بیٹی تمہیں اب جانا ہو گا سونا کر کے میرا آنگن نیا گھر بسانا ہو گا دل میں گریں گے آنسو بہت میں باپ ہوں لیکن مجھے مسکرانا ہو

Gada Gar Faqeer Zafar Iqbal Mughal

  گداگر/ فقیر آج میں بہت خوش تھا۔ موٹر وے سے گاڑی اتار کے نہر کے کنارے سپیڈ سے گاڑی اڑاتے ھوئے جا رھا تھا۔ لاؤڈ میوزک سنتے ھوئے بڑی مستی کے موڈ میں کیمپس پل پہ سرخ بتی کو رنگ میں بھنگ ڈالتے ھوئے بڑی ناگواری سے دیکھا۔ اور بریک پہ پاؤں کا وزن بڑھاتے ھوئے چوک کے قریب گاڑی روک کر کھڑا ھو گیا ۔ اور سگنل کے گرین ھونے کا انتظار کرنے لگا۔ اور سوچوں میں گم ھو گیا کہ آج کیا کیا شاپنگ کرنی ھے۔ساتھ ساتھ جیب میں پڑے ھوئے پانچ ھزار کے نوٹوں کی گڈی کا نشہ بھی محسوس کر رھا تھا۔میوزک کی آواز کو سگنلُ پہ کھڑے ھونے کی وجہ سےآھستہ کر دیا تھا۔ مگر اپنی شہادتی انگلی سے اسٹیرنگ وھیل پہ مسلسل ڈرم بجا رھا تھا۔ ابھی گانے کا مزا لے ھی رھا تھا کہ ایک فقیر نے شیشہ کھٹکھٹایا اور کہنے لگا کہ اللہ کے نام پہ کچھ دے دو ۔ میں نے اسی سرور و کیف کی مستی میں اپنی شہادتی انگلی کو ہی بڑی شان بے نیازی سے اس کی طرف ہوا میں لہرایا اور دبی سی آواز میں بابا جی معاف کرو کہہ کے دوبارہ گانے کی لے کی طرف متوجہ ھو گیا۔ اسی اثناء میں وہ فقیر دوبارہ مجھ سے مخاطب ھوا۔ میرے بچوں نے رات سے کچھ نہی کھایا ۔ یہ تقریبا" وھی الفاظ تھے

Bhairia Kaisa Janwar Hai Manqool

بھیڑیا کیسا جانور ہے؟   بھیڑیا واحد ایسا جانور ہے جو اپنی آزادی پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتا اور کسی کا غلام نہیں بنتا بلکہ جس دن پکڑا جاتا ہے اس وقت سے خوراک لينا بند کر ديتا ہے اس لیئے اس کو کبھى بھى آپ چڑيا گھر يا پھر سرکس ميں نہيں ديکھ پاتے اسکے مقابلے ميں شیر ، چيتا ، مگر مچھ اور ہاتھى سمیت ہر جانور کو غلام بنایا جا سکتا ہے۔‏ بھیڑیا کبھی  مردار ﻧﮩﯿﮟ کھاتا اور نہ ہی بھیڑیا محرم مؤنث( والدہ، بہن) پر جھانکتا ھے یعنی باقی جانوروں سے بالکل مختلف بھیڑیا اپنی ماں اور بہن کو شہوت کی نگاہ سے دیکھتا تک نہیں۔‏ بھیڑیا اپنی شریک حیات کا اتنا وفادار ہوتا ھے کہ اسکے علاؤہ کسی اور مؤنث سے تعلق قائم نہیں کرتا۔ اسی طرح مؤنث( یعنی اسکی شریک حیات) بھیڑیا کے ساتھ اسی طرح وفاداری نبھاتی ھے۔ ‏بھیڑیا اپنی اولاد کو پہنچانتا ھے کیونکہ انکے ماں و باپ ایک ہی ہوتے ہیں۔۔۔ جوڑے میں سے اگر کوئی ایک مر جائے تو دوسرا مرنے والی جگہ پر کم از کم تین ماہ کھڑا بطور ماتم افسوس کرتا ھے۔‏ بھیڑئیے کو عربی زبان میں "ابن البار" کہا جاتا ہے، یعنی"نیک بیٹا" کیونکہ جب اسکے والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں

Sailab Aur Hum By Sarah Khan

  سیلاب 2010 اور ہم آج سے ٹھیک بارہ سال پہلے انہی دنوں میری فیملی سیلاب کے مصیبت زدگان میں شامل تھی۔ تب میں فورتھ گریڈ کی طالبہ تھی۔ بارشوں کی کثرت کے باعث دریائے سندھ میں پانی کا لیول پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا تھا، ہمارا مسئلہ لوکیشن تھی جسکی ایک طرف دریائے سندھ تو دوسری طرف ٹی پی لنک ، گھر کے سامنے بھی نہر اور ساتھ میں ضلعے کی دریا نما نہر ہے۔ ٹی وی پہ سیلاب کی خبریں اور اماں کے تاثرات دیکھ کر دل دہل جاتا تھا۔ پھر اچانک ایک صبح دو بجے ( تین اگست 2010 ) اماں نے ہم سات بہن بھائیوں کو جگا کر صورتحال کی بریفنگ دی۔ " دریا کا بند ( کنارہ) ٹوٹ گیا ہے ، ہم ابھی گھر چھوڑ دیں گے ، کسی نے ڈرنا یا رونا نہیں ہے ، ہم لوگ تھل جا رہے ہیں۔ تم لوگوں کے ابا ساتھ نہیں ہیں ، اس لیے ہم سب نے ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے " بریفنگ ابا پہ آ کر ختم ہوئی اور یہی امی کا ضبط بھی۔ روتے ہوئے آدھا ضروری سامان ایک ٹرنک میں رکھا، سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ؛ مویشی کیسے چھوڑیں ، اماں کی ہی نہیں بلکہ ہم سب کی ان سے فیملی ممبرز جیسی اٹیچمنٹ تھی ۔ ناچو ، شہزادی ، انجلی ، چندا اور پھر اتنی ساری بکریاں۔ ٹونی