Skip to main content

Posts

Showing posts from May, 2023

Victoria aur Abdul Kareem: Malka E Britain aur Un Ke Indian Mulazim Ki Dosti ki Dastaan

  وکٹوریا اور عبدالکریم: ملکۂ برطانیہ اور ان کے ہندوستانی ملازم کی دوستی کی لازوال داستان گذشتہ سال جب برطانوی شہزادہ ہیری اور ان کی اہلیہ میگھن مارکل نے اپنی شاہی رہائش گاہ کنسنگٹن پیلس سے ونڈسر میں واقع فروگمور کاٹیج منتقل ہونے کا اعلان کیا تو 19ویں صدی کے اوائل میں تعمیر کیا جانے والا یہ شاہی گھر، جو ایک زمانے میں افسانوی شہرت رکھتا تھا، ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گیا۔   اپریل سنہ 2019 میں تین ملین پاؤنڈ کی لاگت سے ہونے والی تزئین و آرائش کے بعد جب شاہی جوڑا اس تاریخی گھر میں منتقل ہوا تو شاید اسے بھی نہیں معلوم تھا کہ سوا صدی قبل اسی گھر میں رہائش پذیر ایک شخص کم وبیش اسی طرح خبروں کی سُرخیوں کی زینت بنا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس شخص کا تعلق شاہی خاندان سے نہیں بلکہ وہ ایک عام ہندوستانی عبدالکریم تھا۔ انھی دنوں ونڈسر سے پانچ ہزار میل دور کراچی کی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے ایک گھر میں چار پاکستانی فروگمور کاٹیج کے اس ہندوستانی مکین سے اپنے خاص تعلق کو یاد کرنے جمع ہوئے۔ پروین بدر خان عبدالکریم کی پڑنواسی، مظہر سعید بیگ اور قمر سعید بیگ پڑنواسے جبکہ 90 سالہ سیّد اقبال حسین خاندان

صفر سے فلسفہ حیات تک: انڈیا کی قدیم نالندہ یونیورسٹی جس نے دنیا بدل کر رکھ دی

  صفر سے فلسفہ حیات تک: انڈیا کی قدیم نالندہ یونیورسٹی جس نے دنیا بدل کر رکھ دی یہ سردیوں کی ایک صبح ہے۔ ہر طرف گہری دھند چھائی ہوئی ہے۔ ہماری گاڑی سڑک پر بہار کی مشہور سواری تانگوں کے پیچھے سے گزرتی ہے۔ تیز بھاگتے گھوڑے اور خاص پگڑی میں کوچوان سفید دھند میں ’سائے‘ کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔ انڈیا کے ’بودھ گیا‘ قصبے، جس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں گوتم بدھ نے معرفت حاصل کی تھی، میں رات گزارنے کے بعد میں اس صبح نالندہ کے لیے روانہ ہو گیا۔ یہ وہ یونیورسٹی ہے جس کی سرخ رنگ کی اینٹوں کے کھنڈرات ابھی تک قدیم دنیا کے سب سے بڑے علمی مراکز میں سے ایک ہیں۔ یہ یونیورسٹی پانچویں صدی عیسوی 427 میں قائم کی گئی تھی اور اس کا شمار دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ یورپ کی آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی سے بھی پانچ سو سال قبل انڈیا کی شمال مشرقی ریاست بہار کی نالندہ یونیورسٹی تعلیم کا ایک اہم اور عالمی مرکز ہوا کرتی تھی۔ قرون وسطیٰ کے ’آئیوی لیگ‘ کے ایک ادارے کی مانند اپنے عروج کے زمانے میں اس یونیورسٹی میں نہ صرف ہندوستان کے طول و عرض سے بلکہ تبت، چین، ایران، حتیٰ کہ ی

Moscow Kiyoon Russia Ka Markaz Ban Gaya?

  ماسکو کیوں روس کا مرکز بن گیا؟ روسی دارالحکومت ماسکو کے عین مرکز ميں بلدیاتی ادارے کے سامنے قدیم زمانے کے روسی "کنیاز" یعنی راجا یوُری دلگو رُوکی کی یادگار نظر آتی ہے- اس پر تحریر ہے کہ یہ مجسمہ ماسکو تعمیر کرنے والے کی یاد میں بصب کیا گیا ہے- بات یہ ہے کہ راجا یوُری دلگو رُوکی کے دور حکومت میں واقع نگاری میں ماسکو کا پہلی بار تذکرہ کیا گیا تھا- سمجھا جاتا ہے کہ ماسکو 1147 میں بس گیا تھا - تاہم تاریخدانوں کی را ۓ میں اس جگہ جہاں ماسکو قائم ہے لوگ تقریبا ً تین ہزار سال پہلے بھی آباد تھے- اس بات کے ٹھوس ثبوت بھی ملے ہيں- مثال کے طور ماہرین اثار قدیمہ نے پر ماسکو میں کھدائ کے کام کے دوران میں ایک قدیم بستی کی باقیات ڈھونڈ نکالیں جن کی بدولت پتہ چلا کہ یہاں زندگی ساتویں صدی قبل از مسیح میں ہی رواں دواں تھی- ظاہر ہے کہ شروع میں ماسکو دارالحکومت نہیں تھا- اس سے پہلے روس کے دوسرے شہر یعنی کیئو، نوگرود، ولادی میر، تویر، کستروما اور لادوگا کو اس شرف سے نوازا گیا تھا - یہ شہر ماسکو کی نسبت کہیں پرانے ہیں لیکن اس کے باوجود ماسکو متحدہ روسی ریاست کا دارالحکومت بنا- اس کی کئی وجو

Sacsayhuamán Wonder of Peru

  پیرو کا سکسے ہوامن عجوب ہ براعظم جنوبی امریکہ کے ملک ’’پیرو ‘‘ (Peru) کا ذکر کرتے ہیں جو اپنی ’’انکا ‘‘ (Inca) تہذیب اور اس کے عجائبات کے لحاظ سے مالا مال ہے۔ ’’پیرو‘‘ کے مشہور شہر ’’کسکا ‘‘ (Cusca) میں پتھروں کے چوکور ٹکڑوں سے بنا ہوا وسیع و عریض عمارتی ڈھانچہ بھی انہیں عجائبات میں سے ایک ہے جس کے بنانے کی وجہ سے ماہرین تاحال لاعلم ہیں۔ اس کی دریافت پر ماہرین آثار قدیمہ کا خیال تھا کہ شاید یہ کوئی قلعہ ہے لیکن بعد میں انہوں نے چند شواہد کی بنا پر اندازہ لگایا کہ یہ جگہ تقریبات منعقد کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ وجہ استعمال چاہے کچھ بھی رہی ہو مگر یہ بات ماننے کی ہے کہ اس کا طرز تعمیر حیران کن ہے۔ کیونکہ ان پتھروں کو بہت خوبصورتی کے ساتھ کاٹ کر انتہائی مضبوطی سے ایک دوسرے پر جما جما کر یہ تعمیر کی گئی ہے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان پتھروں کو جوڑنے کے لیے کوئی مسالحہ (یعنی سیمنٹ کی طرح کی کوئی چیز وغیرہ) بھی استعمال نہیں کیا گیا۔ اگرچہ یہ پتھر بہت آرام سے ایک دوسرے پر جمے ہوئے ہیں لیکن ان کی شکل ایک دوسرے سے مختلف ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسے تعمیر کرنے والوں نے کوئی خاص