۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ اللہ کِسقدر قیامت ٹُوٹ پڑی نہ ؟
کِسقدر ہماری غیرت کو دھچکہ لگا نہ ؟
لیکن جب ہمارے مُلک میں بچے برائے فروخت کے بینر اُٹھائے ایک ماں پریس کلب کے آگے رو رہی ہوتی ہے
جب بم دھماکے میں معصوم و بے گُناہ لوگ تڑپ تڑپ کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں
جب بے روزگاری کے باعث نوجوان گلے میں پھندا لگا کر جُھول جاتے ہیں
جب ہماری معصوم بچیوں اور بچوں کو جنسی جُنونی چیر پھاڑ کر مار دیتے ہیں
جب ہمارے کرپٹ سیاہ ستدان پانچ سال ہمارا چمڑہ اُتار کر پھر الیکشن میں دانت نِکالے ہمارے گھروں کے سامنے ووٹ کی بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں
جب غیرت کے نام پر عورتوں کے ناک کان کاٹے جاتے ہیں اُنکو قتل کیا جاتا ہے
جب عدالتوں میں عوام کے فیصلوں کو اسقدر طوالت دی جاتی ہے کہ غریب شخص فیصلہ سُننے تک جیل میں ہی مر جاتا ہے
جب پانی بجلی گیس اور دیگر ضروری اشیاء نایاب ہو جاتی ہیں
اور دیگر کئی ایسے مسائل ہمارے سر پر گِدھ کی طرح منڈلا رہے ہوتے ہیں تب یہ غیرت ہمارے پچھواڑے میں خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہوتی ہے اور ہمیں یاد ہی نہیں رہتا کہ ہم ایک با غیرت قوم ہیں اور ہمیں اِنھی مسائل پر با غیرت ہونے کا ثُبوت دینا ہے نا کہ ایک لڑکی کے پرچم کیساتھ رقص پر مُنہ سے جھاگ اُڑانی ہے
با اور بے کا ہی فرق ہے صاحب
اب آپ اپنی غیرت سے پہلے با لگانا چاہتے ہو یا بے
Good
ReplyDelete