ظہورِ فجر میں تاروں نے جب کلام کِیا
ہوا نے جُھک کے چراغوں کو کیوں سلام کِیا
نشانِ ماتمِ ہجراں پہ کِھل اُٹھی وحشت
تِرے فقیر کا صحرا نے احترام کِیا
سوال پوچھیں گی اِک دن میاں نئی نسلیں
زمیں پہ تُم نے محبت کو کیوں نہ عام کیا
چراغ بُجھنے پہ آیا تو میری آنکھوں نے
بڑے خلوص سے گِریے کا اہتمام کِیا
خزاں رسیدہ شجر بھی دُعائیں دینے لگے
جہاں بہار نے تھک کر ذرا قیام کِیا
ضعیف ہِجر محبت کے مُنکروں میں نہ ہو
تُو مقتدی بھی نہیں تھا تُجھے اِمام کِیا
Comments
Post a Comment