وفا میں اب یہ ہنر آپشن کرنا ہے۔
واہ
سچ کہے نہ کہے ہیں کرنا بار
یہ
تجھے کو جاگتے رہنا کا شوق کب کہنا ہے؟
مجھ
سے خیر تیرا انتظار کرنا ہے۔
ہوا
کی زاد میں جلانے میں ہیں آنسو کے چراغ
کبھی
کبھی میں معافی مانگ لیتا ہوں۔
واہ
مسکراہٹ کے نئے وسوسوں میں ڈال گیا
شرم
کا کیا فائدہ؟
خود
اپنے جزم کو ہو - برگ او بار کرنا ہے۔
تیرے
فراق میں دن میں بوسہ تارہ کٹائی اپنانا
چلو
یہ اشک ہی موتی سماج کے بارے میں آیا
کسی
تارہ سے ہمین روزگار کرنا ہے۔
کبھی
تو دل میں چھپے زخم بھی نمبر ہو
قبا
سمجھ کے جسم تار تار کرنا ہے۔
خدا
خبر یہ کوئی زید کے شوق ہے 'محسن'
ود اپنی جان کے دشمن کرنا ہے۔
محسن نقوی
Comments
Post a Comment