چلے بھی آؤ کی گلشن کے کروبار چلے
قفس
اداس ہے یارو سب سے کچھ کہو
کہیں
سے بہرِ ہُودا آج ذکرِ یار چلے
کبھی
تو سب ٹائر کنجِ لیب سے ہو اگاہز
کبھی
تو شب سر کاکول سے مشک بار چلے
بہت
ہے درد کا رشتہ یہ دل ہاریب صاحب
تمھارے
نام پہ
جو
ہم پہ گزری تو گزری مگر شبِ ہجراں
تار
تار چلے
مقام
'فیض' کوئی راہ میں جاچھا نہیں
جو
کو یار سے نکلے تو سو در چلے
Comments
Post a Comment