پاس اس کے ایک قلم
پڑا ہو اور
ایک سادہ سفید کاغذ
رات کی انگڑائی جب
جوبن پر ہو تم
چاند پر لکھنا
میں اسے اس کاغذ پر
پڑھوں گی
قلم یونہی خاموش
پڑا رہے گا
تم دیکھنا
سفید گلاب کے کناروں سے
لہو ٹپکے گا
مورخ جب محبت کی
داستاں لکھے گا تو
یہ ضرور اقرار کرے گا
چاند اور کاغذ کی تحریر
یکساں تھی
اداس اور تنہا
چاند کے چہرے پہ داغ تھا
اور کاغذ کے درمیاں دل
بنا تھا
سفید گلاب سے جو لہو
ٹپکا تھا اس نے بھی ہجر
لکھا تھا
بس ذرا یہ دھیان رکھنا
سفید گلاب کے کنارے
گلابی ہوں اور
قلم کی سیاہی
سوکھ چکی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔!!
Comments
Post a Comment