Skip to main content

Niyaz Ye Column Parho to Rabta karo, No-Kheziyaan, By Gul No Khaiz Akhtar | Masoom Pathani

.....
نیاز تین چار سال پہلے میرا ڈرائیور تھا۔گاڑی بہت صاف رکھتا تھا‘ گھر کا چھوٹا موٹا پلمبرنگ کا کام بھی کردیتا تھا‘ خراب انرجی سیور بھی ٹھیک کرلیتا تھا‘ پانی والی موٹر کی ریپرئنگ بھی جانتا تھا۔۔۔الغرض ہر کام میں کچھ نہ کچھ ماہر تھا سوائے ڈرائیونگ کے۔اِس معاملے میں اُس کے اپنے ہی اصول تھے۔ مثلاً گاڑی ریورس کرتے ہوئے وہ شیشوں کی مدد لینے کا قائل نہیں تھا۔ جونہی ٹھاہ کی آواز آتی، خود ہی سمجھ جاتا کہ گاڑی اب مزید ریورس نہیں ہوسکتی۔اُس کے اکثر کام میرے ذمہ تھے۔ مثلاً شام کوکسی ڈنر میں جانے کے لیے خود ہی گاڑی لے کر نکل جاتا تو اکثر اُس کا میسج آجاتا’’سرجی! آتے ہوئے آدھی ڈبی سگریٹ لیتے آئیں‘‘۔ایک دفعہ میں رات کو دیر تک کام کرتے ہوئے مجھے بھوک لگ گئی۔ میں نے اسے تین سو روپے دے کر مارکیٹ بھیجا کہ دو برگر لے آؤ‘ ایک اپنے لیے ،ایک میرے لیے۔ موصوف نے واپسی پر ڈیڑھ سو روپے میرے ہاتھ پر رکھ دیے اور فرمایا’’اُس کے پاس صرف میرا ہی برگر بچا تھا‘ آپ کا نہیں ملا‘‘۔
نیاز کو بلاوجہ ہارن بجانے کی بیماری تھی۔ایک دفعہ مجھے شک گذر ا کہ اُس نے کافی دنوں سے گاڑی کا انجن آئل تبدیل نہیں کیا۔ میں نے کہا ذرا بونٹ کھولو۔ اُس نے فوراً ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور بونٹ کا بٹن کھینچ دیا۔ میں نے آئل چیک کیا ‘ واقعی بدلنے والا ہوگیا تھا۔ اتنے میں اُس نے ہارن پر ہاتھ مارا۔۔۔ایک تو بونٹ کھلا ہوا تھا اوپر سے میں لگ بھگ ہارن کے اوپر جھکا ہوا تھا۔۔۔پاںںں ۔۔۔کی آواز آئی اورمجھے یوں لگا جیسے میرے سامنے بلٹ ٹرین آگئی ہے۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا آگیا اور کان بند ہوگئے۔ میں نے کربناک چیخ ماری اور چکر کھا کرپوری ذمہ داری سے وہیں ڈھیر ہوگیا۔نیاز بوکھلا کر باہر نکلا اور جلدی سے مجھے اٹھایا ۔ میں نے ادھ کھلی آنکھوں سے نیاز کو دیکھااور لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں پوچھا’’مم۔۔۔میں کہاں ہوں‘‘۔ نیاز سمجھ گیا کہ میں ہوش میں نہیں ہوں‘ اُس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بونٹ میں سے ریڈی ایٹر والی پانی کی بوتل کا ڈھکن کھولا اور میرے منہ پر چھینٹے مارے۔ہوش بحال ہوتے ہی میں اُس پر برس پڑا کہ گیراج میں کھڑی گاڑی کا ہارن بجانے کی کیا تُک ہے؟ سہم کر بولا’’میں تو صرف آپ سے پوچھنا چاہ رہا تھا کہ تیل پانی ٹھیک ہے ناں؟‘‘۔
نیاز چرس کا بھی پیتا تھا اور اکثر مختلف بہانوں سے مجھ سے پیسے اینٹھتا رہتا تھا۔چونکہ مجھے کچھ پتا نہیں ہوتا تھا کہ گاڑی چلاتے ہوئے وہ کس عالم میں ہے لہذا سختی سے ہدایات تھی کہ ڈرائیونگ کے دوران آرام سے اپنی لائن میں رہنا ہے‘ کسی گاڑی کے ساتھ ریس نہیں لگانی۔ایک دن میں پچھلی سیٹ پر لیپ ٹاپ کھولے ایک سکرپٹ پڑھ رہا تھا کہ اچانک گاڑی میں نیاز کی آواز گونجی’’سرجی! دعا کریں بچی بچ جائے‘‘۔میں اتنے زور سے اچھلا کہ میرا سر گاڑی کی چھت سے جاٹکرایا’ کون سی بچی ۔۔۔اوئے کسی بچی کو گاڑی کے نیچے تو نہیں دے دیا؟‘‘۔ نیازفوراً نے تسلی دی’’نہیں صاحب جی! اپنی بچی کی بات کر رہا ہوں‘‘۔ میں چونک اٹھا’’کیا ہوا تمہاری بچی کو؟‘‘۔ نیاز نے آہ بھری’’بس سرجی! گاؤں سے بیوی کا فون آیا تھا‘ بچی کی طبیعت خراب تھی‘ ہسپتال لے کر گئے تھے لیکن ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی میں سکتے میں آگیا۔ اگرچہ اس سے پہلے نیاز کئی دفعہ بچی کے علاج کے نام پر پیسے لے کر گاؤں بھیجنے کی بجائے جوئے میں لٹا چکا تھا لیکن بہرحال وہ باپ تھا اور ایک باپ اپنی بچی کے بارے میں اتنا بڑا جھوٹ نہیں بول سکتا تھا۔آفس پہنچ کر میں نے کچھ سوچا اور نیاز کے چھوٹے بھائی سعید کا فون ملایا۔ سعید گاؤں میں ہی رہتا تھا۔ سلام دعا کے بعد میں نے پوچھا کہ تمہار ابڑا بھائی بتا رہا تھا کہ تمہاری بھتیجی کو ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے؟‘‘۔ سعید خوشی سے بھرپور آواز میں بولا’’ہاں جی! کل ہی جواب دیا ہے۔‘‘ اُس کا لہجہ سن کر میں بوکھلا گیا’’کیا کہا ڈاکٹروں نے؟‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی’’ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ یہ اب بالکل ٹھیک ہے اسے گھر لے جائیں‘‘۔ میں نے فوراً فون بند کیا اور غصے سے نیاز کو بلایا۔نیاز صاحب اندر تشریف لائے اور میرا چہرہ دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ کوئی اور جھوٹ پکڑ ا گیا ہے۔ میں نے اُسے بتایا کہ میری اُس کے چھوٹے بھائی سے کیا بات ہوئی ہے۔ نیاز نے فوراً دانت نکالے۔۔۔’’جی سر جی! میں بھی تو یہی بتا رہا تھا کہ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے کہ اب علاج کی کوئی ضرورت نہیں بچی ماشاء اللہ ٹھیک ٹھاک ہے‘‘۔ میں نے دانت پیسے اور پاس پڑا ہوا پیپر ویٹ اٹھا کر نیاز کی طرف پھینکا جو اس نے نہایت مہارت سے کیچ کر کے بڑے ادب سے دوبارہ ٹیبل پر رکھ دیا اورانتہائی مودبانہ انداز میں چھلانگ مار کر باہر نکل گیا۔۔۔!!!
دو ہفتوں بعد اس نے بتایا کہ بچی پھر بیمار ہوگئی ہے اور دوائیوں کے پیسے نہیں ہیں۔ میں نے پوچھا کتنے کی دوائیاں آئیں گی۔ جھٹ سے بولا’’دو ہزار کی‘‘۔ میں نے سرہلایا’’ٹھیک ہے! تم ایسا کرواپنی بیوی دوائیاں پوچھو‘ میں یہیں سے کورئیر کروا دیتا ہوں‘ کل مل جائیں گی۔‘‘ نیاز نے کنپٹی کھجائی’’سرجی !میری بیوی تو ان پڑھ ہے‘‘۔ میں نے دوسرا حل پیش کیا’’چلو پھر ایسا کرو کہ اُس سے کہو میڈیکل سٹور والے کے پاس نسخہ لے جاکر مجھ سے بات کروا دے ‘‘۔ نیا ز نے کنپٹی پر آیا ہوا پسینہ صاف کیا اور اٹکتے ہوئے بولا’’سرجی! میڈیکل سٹور تو شہر میں ہے اور ہمارا گاؤں شہر سے بیس میل دور ہے‘‘۔ میں نے غور کیا اور تیسرا حل پیش کیا’’اوکے! بیوی سے کہو گاؤں میں کسی پڑھے لکھے کے پاس چلی جائے اور میری بات کروا دے میں اُس سے دوائیوں کے نام پوچھ لوں گا‘‘۔نیاز اس حملے کے لیے تیار نہیں تھالہذا جلدی سے بولا ’’اچھا جی‘‘۔ شام کو دفتر سے واپسی پر اچانک مجھے صبح والی بات یاد آئی۔ میں نے پوچھا’’نیاز تم نے بیوی کو فون کیا تھا؟‘‘۔ آہ بھر کر بولا’’ہاں جی! وہ گئی تھی گاؤں کے پڑھے لکھے لوگوں کے پاس لیکن وہ سب کہتے ہی کہ ہم کیوں تمہیں نسخہ پڑھ کر بتائیں‘‘۔نیاز کا جواب سن کرحیرت سے میری آنکھیں پھیل گئیں۔’’ نیاز ! گاؤں میں تم ایسا کیا کرکے آئے ہو کہ لوگ تمہارا کاغذ کا ایک ٹکڑا تک پڑھنے کو تیار نہیں؟‘‘۔نیاز نے کائنات کا عجیب و غریب جواب دیا’’سرجی! غریب کا نسخہ کون پڑھتاہے‘‘۔
اگلا سارا دن میرا اسی کشمکش میں گذرا کہ کیا کروں۔ پتا نہیں کیوں مجھے یقین تھا کہ نیاز پھر فراڈ کر رہا ہے۔ شام کو اس نے ایک ہولناک خبر سنا دی کہ بچی کی طبیعت اچانک شدید خراب ہوگئی ہے اور اب اسے خون کی دو بوتلوں کی ضرورت ہے۔ میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ تصدیق کے لیے اُس کے چھوٹے بھائی کو فون کیا تو اُس کا نمبر بند تھا۔میں نے پریشانی کے عالم میں پوچھا کہ ’’نیاز بچی کی عمر کتنی ہے؟‘‘ ۔ جلدی سے بولا’’سرجی ! چھ مہینے‘‘۔۔۔مجھے غش پڑتے پڑتے بچا۔ ’’چھ مہینے۔۔۔اوئے چھ مہینے کی بچی میں تو دو بوتل خون کی جگہ ہی نہیں ہوتی‘‘۔نیاز کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ اور پھر اُس نے جو جملہ کہا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔۔۔بوکھلا کر بولا’’سرجی اصل میں ہاف لٹر والی دو بوتلیں لگنی ہیں۔۔۔!!!‘‘
مجھے نہیں پتا کہ اِس کے بعد کیا ہوا تھا‘ بس اتنا یاد ہے کہ تین چار منٹ بعد ہم دونوں شہر کی مصروف ترین سڑک کے فٹ پاتھ پر تیز تیز واک کر رہے تھے۔وہ آگے اور میں پیچھے تھا۔۔۔غالباً میرے ہاتھ میں اینٹ بھی تھی۔۔۔یہ اینٹ آج بھی اپنے شکار


کو ترس رہی ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Abb Chalakty Hoe Sagir Nhin Dakhy Jaty Tooba Ky Bad Ya Manzir Nhin Dakhy Jaty Urdu Ghazal By Ali Ahmed Jalili

  اب چھلکتے ہوئے ساغر نہیں دیکھے جاتے توبہ کے بعد یہ منظر نہیں دیکھے جاتے مست کر کے مجھے اوروں کو لگا منہ ساقی یہ کرم ہوش میں رہ کر نہیں دیکھے جاتے ساتھ ہر ایک کو اس راہ میں چلنا ہوگا عشق میں رہزن و رہبر نہیں دیکھے جاتے ہم نے دیکھا ہے زمانے کا بدلنا لیکن ان کے بدلے ہوئے تیور نہیں دیکھے جاتے علی احمد جلیلی  

Jany Na Jany Ghull Hi Na Jany Batt Sy Sara Jana Hai Lagny Na Dy Bs Ho Hamain Ky Ghor Ghosh Ko Baly Tk Urdu Ghazal

  جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے بات سے سارا جانا ہے۔ لگنے نہ دے بس ہو ہمیں کے گوہر گوش کو بالے تک ہم کو فلک چشمِ مہ و حور کی پوتلی کا تارا جانا ہے کب موجود ہُودا کو وو محرورِ ہُود آرا جانا ہے عاشق سا سے ساڈا کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں جی کے ضیاء کو عشق میں ہم کو اپنا وار جانا ہے چرگڑی بےماری دل کی رسم شہرِ حسن نہیں ورنا دلبر نادان بھی ہے درد کا چارہ جانا ہے کیا ہی شکار فریبی پر مہر ہے وو سید بچہ مہر وفا یا لطف و عنایت ایک سے واقف میں نہیں اور تو سب کچھ تنز اے کنایا رمز اے عشرہ جانا ہے کیا کیا فٹنے سر پر ہمیں لاتا ہے مشوق اپنا جِس دل ہو تب و تواں کو عشق کا مارا جانا ہے رہنوں سے دیور چمن کے منہ کو لے ہے چھپا یانی سورہوں کے تک رہنے کو سو کا نظر جانا ہے میں تشنہ ہے اپنا کتنا 'میر' بھی ندان تلہی کاش دام دار آبِ تہہ کو ہمارے لیے اب گوارا جانا ہے عجب عزت اور بے ادبی کے دارمیاں ہے زندگی اور کے مجھے جنتا کوئی اور ہے تو قریب آ تجھے دیکھ لو تو وہ ہے یا کوئی اور ہے توجھے دشمنوں کی ہبر نہ تھی مجھے دوستو کا پتہ نہیں تیرِ دستان کوئی اور تھی میرا حق۔ کوئی ...

Punjab Hoo Yaa Sindh Makn Hoo Yaa Pind Tery Sr Pyy Ghareeby Baal Hoo Yaaa Tind Ya ajab Hayee Bukhar Beyyy Maari Salaaab Hayee Halaat Haain Khaateen Saab Beyy Maar Haaain Urdu Ghazal By Faris Shafi

پنجاب ہو یا سندھ مکن ہو یا پنڈ تیرے سر پے، غریبے۔ بال ہو یا ٹنڈ یہ عجب ہے بخار ہے۔ بےماری سالاب ہے۔ حلات ہیں خطین سب بےمار ہیں پاکستان وار ادا تیر ہے ہاتھ مین تلوار تائی کلام سے بیکار ہے۔ ایسی لیا سب بیروزگار پریشاں ہیں۔ لوڈشیڈنگ خاص کو کہتے ہیں۔ ٹور ادا یہ قوم آواز ہے لاہور مین آندھرے ۔ اور بم بھیے بٹھائے اور مسپل اور آف سپرے    کھالی کنٹینر اور ہونڈا ہی ہونڈا ہے۔ ہونڈا مین لاوندے ہی لونڈے ہارن ڈی کے کون دیکھے چور کنے ہونڈے نہ بندے۔ میری گاری مین کیون گھرتے ہیں ساری قصور انکا نئی آرے بھول گئے ہیں سالے۔ مجبوری کے مارے  سکول نہیں گے لورے اسے ٹھنڈا کریں۔ مل گیا جو تم مجھ سے چاہتے ہو۔ اسے ٹھنڈا کریں۔ آپ کو مجھ سے جو ضرورت ہے لے لو اسے ٹھنڈا کریں۔ جی ہاں، آپ بہت اچھے ہوں گے۔ نیوا کول ہو ہو سالے ! بدمعاش ہیں۔ دل مین ! داری مین خراش ہے۔ ہمارے روحِ ایمان ہے۔ کاہن؟ انصاف ہے کہاں؟ نیٹو فوج سے قوم ہے ہمیشہ کہتے ہیں لن ادا بارہ گئے کھرچے، اور اب اگرچے۔ ہم آپس مین لار کے اور جھگڑا اک دوجے کہہ سرہ کے جل کے مار گئے مذہب  کے مسئلے غضب کے جلسے قاتل کے ہملے پاکستان کو لگ گیا، لسان ک...