"آئی سی یو کے بستر پر پڑی بے بس و لاچار "مشینوں میں جکڑی، بے حس ہسپتال کے عملے کے حوالے میری ماں کبھی درد سے کراہتی تو کبھی دوا کے اثر سے بے سدھ ہو جاتی"۔
اس کی یہ حالت مجھ سمیت سب گھر والوں کے لئے بہت ہی تکلیف دہ تھی.
والد صاحب ماں جی کے ساتھ اندر آئی سی یو میں تھے.......باقی ہم تین افراد آئی سی یو کے باہر دروازے کے سوراخ سے باری باری جھانکتے۔۔۔۔۔۔ بے چین دل کے ساتھ زبان پر اُن کی صحت کے لئے دعا ئی ورد جاری تھے لیکن دل ڈوب رہا تھا۔۔۔
نجانے کیا ھونے والا ہے؟
," دماٖ غ کچھ سوچنا نہیں چاہتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے؟"
بس اک امید اور دعاؤں پر یقین نے ہمیں آئی سی یو کے باہر کھڑا کر رکھا تھا۔۔۔۔۔ہر آہٹ پر جب کوئی ڈاکٹر یا نرس باہر آتے تو ہم اِک کونے سے اُن کی طرف لپکتے اور وہ یہ کہ کر چلے جاتے دعا کیجئے بس۔۔۔
ہم پھر اک کونے میں جا کر بیٹھ جاتے۔۔۔۔۔
مشکل اور اذیت ناک لمحے گزارے نہیں گذر رہے تھے۔
مجھے گھر جانا تھا کیونکہ میری بہن اپنے بچے کے ساتھ مانچسٹر سے کل لاہور پہنچنے والی تھی لیکن ماں کو اس حالت میں چھوڑ کر جانا بھی میرے لئے آسان نہیں تھا۔
ماں جی کو بھی اس کا بے چینی سے انتظار تھا۔ جب بھی ہوش آتا تو بس یہی کہتیں کہ اس کو مت بتانا۔
وہ پریشان ہو جائے گی۔۔۔۔۔ پردیس میں ہے میری بچی۔۔۔۔
پتا نہیں!! کن حالات میں ہوگی ؟
کیسے اتنی جلدی پہنچے گی؟
بے ہوشی کے عالم میں بھی وہ یہی باتیں سوچ رہی تھیں۔
کاش وہ پردیس نہ ہوتی تو آج میں اس کی ایک جھلک کو اس طرح نہ ترستی۔۔
جب سے گئی صرف ایک چکر لگایا ہے
بس صرف ۳ ھفتوں کے لئے آئی تھی....
میری تو حسرتیں بھی پوری نہ ہو سکیں تھیں اور اس کے جانے کا وقت ہوگیا تھا۔۔۔
ابا جی بار بار کہتے ان باتوں کے بارے میں زیادہ نہ سوچ۔
نیک بخت اللہ بہتر کرے گا۔ اسے اطلاع دے دی ہے۔۔۔
کل صبح تیرے پاس ہوگی۔۔۔۔۔۔۔ نکل چکی ہے وہاں سے۔۔
اتنے برسوں بعد جب تجھے اس حالت میں دیکھے گی تو تڑپ جائے گی۔۔۔۔
بس اب جلدی سے ٹھیک ہوجا۔
ماں !! اچھا سچی میری بچی آرہی ہے۔
"میں صدقے" میرا نواسا کتنا بڑا ہوگیا ھوگا؟
بس اب مجھے جلدی سے گھر جانا ہے۔
چھوٹی کو کہو سب کچھ اُس کی پسند کا بنائے۔۔
نہیں نہیں اب مجھے وہاں ہونا چاہئے۔۔۔
وہ غنودگی کی حالت میں بھی بولتی جا رہی تھیں۔۔۔۔
تم سب میرے چکر میں اس کو بُھول جاؤ گے۔ برسوں بعد میری بچی آرہی ہے۔۔
میری فکر نہ کرو میں اب بالکل ٹھیک ہو جاؤں گی کیونکہ میری بچی جو آرہی ہے۔ضرور ہمت کروں گی اپنی بچی کے لئے۔۔۔اپنے نواسے کے لئے۔۔
پھر دوائیوں نے اثردکھایا اور وہ پھر سے غنودگی میں چلی گئیں۔
ہم سب پھر سے پریشان ہو گئے۔۔۔
چند گھنٹوں بعد ڈاکٹر صاحب آئے چیک اپ کیا۔۔۔۔۔۔۔
اس بار بلڈ پریشر نارمل تھا۔۔۔۔۔دل کی دھڑکنیں بھی اپنے معمول پر تھیں۔۔۔۔
مشینیں اُتارتے ھوئے۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحبہ بولیں ! واہ یہ تو معجزہ ہوگیا
آخر آپ نے کیا باتیں کی ہیں مریضہ سے؟
کہ اب وہ خطرے سے باہر ہیں۔۔۔
اب آپ سب ان سے مل سکتے ہیں لیکن تھوڑی احتیاط کیجئے گا کہ وارڈ میں موجود باقی مریض ڈسٹرب نہ ہوں۔۔۔۔۔
امی کی حالت کافی سنبھل چکی تھی ۔
اسی لئے رات کو انہیں کمرے میں شفٹ کر دیا گیا۔۔
ہم سب ان کے پاس تھے وارڈ میں ۔
وہ مجھ سے بات کرنا چاہتی تھیں۔۔۔
میں بھی ان کے قریب کھڑی ہوگئی۔
وہ پیار بھرے لہجے میں بولیں،
میری وجہ سے پریشان نہ ہو جایا کر۔۔۔
بس اب جلدی سے گھر جا۔۔
تیری بہن کتنے سالوں بعد آرہی ہے؟
جا کر اس کی پسند کا کچھ بنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کو مت بتانا کہ کچھ ہوا تھا۔ اتنے لمبے سفر سے آئے گی اور پریشان ہو جائے گی۔۔۔۔۔
پھر بولیں، تجھے نہیں پتا پردیسیوں کے کتنے غم ہوتے ہیں؟
جلدی سے گھر جا میری پرواہ نہ کر۔۔۔
میں بھی جلدی گھر آجاؤں گی۔۔۔۔۔
میں نہیں چاہتی وہ مجھے اس حال میں دیکھ کر پریشان ہو جائے۔۔
امی کو بہتر حالت میں دیکھ کر ہم سب کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔۔۔
میں جو ان تکلیف اور اذیت بھرے لمحوں میں کبھی گھر تو کبھی ہسپتال آ جا رہی تھی۔ سکون سے گھر جانے کے لئے ذہنی طور پر تیار تھی۔۔
پھر امی نے مجھے وہاں نہیں رکنے دیا اور زبردستی گھر بھیج دیا کیونکہ ان کی چہیتی اور لاڈلی جو آ رہی تھی۔۔
سارے راستے میں بس یہی سوچتی رہی کہ
"میری ماں"
کس مٹی سے بنی ہے؟
اس قدر تکلیف میں بھی اسے صرف اولاد ہی کی فکر ستائے جارہی ہے۔۔
یہ سوچ کر میری آنکھیں پھر سے بھر آئیں لیکن میں یہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ یہ آنسو خوشی کے ہیں یا تکلیف کے جبکہ میری ماں تو ابھی بھی آئی سی یو میں ہے۔۔
Comments
Post a Comment