Skip to main content

Non-political interview of a politician By Bushra Bajwa Sahiba From (Ganji Makkhi)

تحریر بشریٰ باجوہ




ایک سیاستدان کا غیر سیاسی انٹرویو

انٹرویو لینے والے شخص کی آواز صاف اور ہر لفظ آسانی سے سمجھ میں آ رہا ہے۔



حاضرین و ناظرین.....میں ہوں آپ کا پسندیدہ اینکر پرسن گپوڑا ..

آج آپ کے سامنے ملک کے مشہور ومعروف مایہ ناز سیاست دان سے گفتگو پیش کر رہے ہیں۔یہ گفتگو براہ راست دکھائی جائے گی....ہمارا فون نمبر بھی سامنے لکھا آ رہا ہے.....اگر ہمارے ناظرین میں سے کسی نے ہمارے مہمان سے کوئی سوال پوچھنا ہو تو بلا تکلف پوچھ سکتے ہیں.... ابھی تھوڑی ہی دیر میں ہم اپنے مہمان..... معروف سیاستدان صاحب سے گفتگو آپ کی خدمت میں پیش کریں گے..... ناظرین و سامعین آپ ہمارے ساتھ ہی رہیے گا.....اب وقت ہوا ہے ایک وقفہ کا.....ملتے ہیں ایک وقفے کے بعد.....




اینکر:"آج ہم آپ کو ملک کے مشہور ومعروف سیاست دان سے ملواتے ہیں چودھری صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں....پھر بھی ان کا تعارف ایک شعر سے کرواتا ہوں....
کھلنا کم کم سیکھا ہے ان کے لبوں نے
یہ شعر کسی شاعر نے خاص چودھری صاحب کے لیے ہی کہا تھا....
ایک اور شعر آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں .....یہ شعر چودھری صاحب کی شخصیت کی مکمل غمازی کرتا ہے.....
بولتا ہوں منہ ہی منہ میں کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی.....

تشریف لاتے ہیں ہمارے ملک کے مشہور ومعروف مایہ ناز سیاست دان..... استقبال کیجئے.... تالیاں....
سیاست دان سفید شلوار قمیص میں ملبوس.... آنکھوں پر دھوپ کا سیاہ چشمہ لگائے ہوئے تشریف لاتے ہیں۔
تالیاں.....
"وقفہ ......اب وقت ہوا چاہتا ہے ایک وقفے کا ..... ہمارے ساتھ ہی رہیے گا پھر ملتے ہیں ایک وقفے کے بعد...."


اینکر : "اسلام و علیکم....کیسے مزاج ہیں؟"
سیاست دان کے ہونٹ ذرا سے ہلتے ہیں..... آہستہ سے کچھ آواز نکلتی ہے جیسے کہ وہ کچھ بولے ہیں....جیسے کہ انہوں نے کچھ کہا ہو۔
اینکر:"جناب....یہ فرما رہے ہیں کہ....وعلیکم سلام"
اینکر:"جناب چودھری صاحب..... گستاخی معاف.... آپ نے رات کے وقت بند کمرے میں دھوپ سے بچاؤ کا چشمہ لگایا ہوا ہے....اس کی کوئی خاص وجہ؟"
سیاستدان منہ میں کچھ بڑبڑا کے ہونٹ بند کر لیتا ہے۔
اینکر:" ہمارے مہمان فرما رہے ہیں,"دھوپ کا چشمہ..... آپ کو اس سے کیا؟..... میں نے لگایا ہوا ہے.... چلو.... اگلا سوال پوچھو۔"

اینکر کیمرے کی طرف توجہ کرتا ہے......."ناظرین! آپ ہمارے ملک کے معروف سیاستدان صاحب کا انٹرویو دیکھ اور سن رہے ہیں..... ابھی ہم ملتے ہیں ایک چھوٹے سے وقفے کے بعد...... وقفے کے بعد ہم پھر سے گفتگو کا سلسلہ دکھائیں گے ملک کے معروف سیاستدان کے ساتھ





اینکر:"محترم! سنا ہے کہ آپ نے پریپ کلاس میں..... یعنی کہ کچی پکی جماعت میں نقل ماری تھی اور نقل مارتے ہوئے پکڑے گئے تھے؟ میرا مطلب ہے کہ جب آپ نے نقل ماری تو وہ نقل کسی کو زور سے لگی تو نہیں؟"
سیاستدان کا منہ ذرا سا کھلتا ہے .... منہ سے ہلکی سی آواز نکلتی ہے اور ہونٹ پھر سے ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہو جاتے ہیں۔
اینکر:"انہوں نے کہا ہے کہ میں نے تو نقل ماری تھی..... آپ کی تو عقل ماری گئی ہے....کس طرح کے سوالات پوچھ رہے ہیں۔"


ایک فون کال آ رہی ہے.... ناظرین....ایک فون سن لیتے ہیں....ہلو.....جی.... آپ کہاں سے بول رہے ہیں؟......ہلو.....ہلو.....یہ کال تو ڈراپ ہو گئ۔
اینکر:"جناب چودھری صاحب! آپ بچپن میں کس قسم کے بچے تھے.....شرارتی؟..... سنجیدہ؟.....چالاک.... ہوشیار.... یا پھر معصوم اور بھولے بھالے؟"
(چودھری صاحب منہ میں کچھ بڑبڑا کر خاموش ہو جاتے ہیں۔)
اینکر:"چودھری صاحب فرماتے ہیں کہ بچپن میں کیسا تھا.....کیسا نہیں تھا..... بچپن گزر گیا....اب تو پچپن بھی کہیں دور نکل گیا ہے.....اب اگلا سوال پوچھیں۔"
اینکر:"ناظرین! اب وقت ہوا چاہتا ہے ایک وقفے کا۔ اس وقفے کے بعد ہم چودھری صاحب سے بہت دلچسپ سوال پوچھیں گے.... ہمارے ساتھ رہیے گا۔"




اینکر:"چودھری صاحب! آپ جب بات کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے تصویر بنے بیٹھے ہیں.... آپ جو کہنا چاہتے ہیں وہ کہہ بھی جاتے ہیں اور آپ کے ہونٹ ذرا ذرا سے ہلتے ہیں..... آپ کے چہرے سے کچھ بھی تاثر ظاہر نہیں ہوتا.....کیا آپ اپنے بچپن میں بھی اسی انداز سے گفتگو کرتے تھے.....یا کہ عام بچوں کی طرح چیخ چلا کر ؟"



اینکر:"ناظرین! چودھری صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے وہ مجھے بھی سمجھ نہیں آیا...."
اینکر چودھری صاحب کی طرف دیکھ کر مخاطب ہوتا ہے: "چودھری صاحب کیا آپ کی والدہ صاحبہ کو آپ کی بات سمجھ میں آتی تھی یا..... ؟"
(چودھری صاحب سر ہلا کر اشارے سے نہیں کہتے ہیں)
اینکر:"اب پھر وقت ہوا چاہتا ہے ایک چھوٹے سے وقفے کا۔"



اینکر:" جی.... چودھری صاحب! کیا بچپن میں آپ روتے تھے.... اگر روتے تھے تو کیا آپ کا منہ کھلتا تھا.....اوں آں ....کر کے .... آواز نکال کر روتے تھے یا پھر آواز کے بنا ہی....منہ کھولے بنا صرف آنسوؤں سے ہی روتے تھے؟"
حسب معمول چودھری صاحب کے ہونٹ ذرا سی جنبش کرتے ہیں
اینکر:"چودھری صاحب فرماتے ہیں کہ وہ بچپن میں روتے ہی نہیں تھے۔"
اینکر:"چودھری صاحب! آپ اسکول میں سبق کیسے سناتے تھے؟....منہ کھول کر .... یا پھر منہ بند کر کے؟"
چودھری صاحب کے ہونٹ ذرا سے ہلتے ہیں۔
اینکر:" چودھری صاحب فرماتے ہیں کہ وہ اپنا سبق لکھ کر سنایا کرتے تھے۔"
ایک فون کال موصول ہوتی ہے۔ " میرا چودھری صاحب سے بہت گہرا تعلق ہے.....میں ایک پاکستانی ہوں.... میرا سوال چودھری صاحب سے ہے کہ.... کیا آپ کھانے کے لیے منہ کھولتے ہیں....اگر کھولتے ہیں تو کتنا؟.... کتنے انچ....یا کتنے گز؟.....یا پھر منہ کھولتے ہی نہیں اور کسی نلی سے خوراک لیتے ہیں؟"

چودھری صاحب کے ہونٹ ذرا سے ہلتے ہیں پھر سے بند ہو جاتے ہیں۔
اینکر:"چودھری صاحب فرماتے ہیں کہ کھانے کے لیے تو سب سیاست دانوں کا منہ کھل جاتا ہے... کیا مطلب....کتنے انچ ... کتنے گز.... جتنا بڑا نوالہ... اتنا بڑا منہ کھل جاتا ہے ۔"
اینکر:" ناظرین! اب وقت ہے چھوٹے سے وقفے کا....اس وقفے کے بعد ہم آپ کی ملاقات کروائیں گے چودھری صاحب کی آیا سے....ان سے چودھری صاحب کے بچپن کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔ "




کیمرے کے سامنے ایک ضعیف خاتون ہیں۔
اینکر:" ماں جی! آپ نے چودھری صاحب کی بچپن میں پرورش کی تھی.... آپ نے انہیں پالا پوسا....بچپن میں ان سے لاڈ پیار بھی کرتی ہوں گی ..... آپ سے پوچھنا ہے کہ کیا چودھری صاحب اپنے بچپن میں بھی اسی طرح بات چیت کرتے تھے؟.....منہ ہی منہ میں..... ہونٹوں کے اندر ہی الفاظ دم توڑ جاتے تھے....کیا آپ ان کی بات کو سمجھ لیتی تھیں؟....کیا اب بھی آپ ان کی گفتگو سمجھ سکتی ہیں؟"
آیا:" پتر....اب تو اس کی بات میرے بھی پلے نہیں پڑتی.... چھوٹا تھا تو اتنا منہ کھول کر روتا تھا کہ سارا محلہ سوتے میں جاگ اٹھتا تھا۔"
اینکر:" ناظرین! ابھی آپ دیکھ رہے تھے ملک کے مشہور ومعروف سیاست دان سے گفتگو....... چودھری صاحب کے ہونٹ تو کھل جاتے ہیں مگر الفاظ منہ کے اندر ہی بند رہتے ہیں.... باہر نکلنے کی کوشش نہیں کرتے.... کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی بات کو ناپا اور تولا جائے.... چودھری صاحب فرماتے ہیں کہ اکثر اوقات انہیں خود بھی اپنی بات سمجھ نہیں آتی....ان کا خیال ہے کہ جو سیاست دان منہ کھول کر واضح طور پر گفتگو کرتے ہیں .....ان کے منہ سے ایسی گفتگو بھی سرزد ہو جاتی ہے جو میڈیا پر تبصرے کی زد میں آ جاتی ہے..... میرے الفاظ میرے منہ سے باہر ہی نہیں نکلتے تو ان پر اعتراض کیسا؟.... مجھے اپنے کہے ہوئے الفاظ واپس بھی نہیں لینے پڑتے..... الفاظ منہ سے نکلیں گے تو تب ہی واپس لوں گا..... میری بات سننے والا سمجھتا ہے کہ اس نے کچھ غلط سمجھ لیا ہے۔
ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ان کے ہونٹوں سے نکلنے والی بات کسی کو ڈھنگ سے سمجھ نہ آئے .....اسی کو سیاست کہتے ہیں۔





 بشریٰ باجوہ



Comments

Popular posts from this blog

Harrr Aikk BAtt Pr Khety Ho TumM Ki Kia Haye TuM Kahu Kii AndAz GhuftoGo KIA Hye Urdu Ghazal

  ہر ایک بات پر کہتے ہو تم کی تم کیا ہے ۔ تم کہو کی تم اندازِ گفتگو کیا ہے کوئی باتو کی وو شوہ ٹنڈ-ہو کیا ہے تم رشک ہے کی وو ہوتا ہے ہم سوہان تم سے وگرنا ہوفِ بدِ آموزِ عدو کیا ہے جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا ۔ ہو جو اب جب آنکھوں سے نہ تپکا تو پھر لہو کیا ہے۔ وو چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز سیوا بدا گلفام مشک بو کیا ہے پیون شراب آگر ہم بھی دیکھ لو دو چار تم شیشہ او قضا اور کوزہ یا سب کیا ہے راہی نہ تختِ گفتار اور آگر ہو بھی کس امید پر کہیے کی آرزو کیا ہے؟ ہوا ہے شاہ کا مصاحب پھر ہے سفر واگرنا شہر میں 'حلب' کی آبرو کیا ہے

KuchH Syy HoVa Bhi SarD Thi Kucchh Tha Tera Hawal Bh Dil Ko KHushi Ky Sath Sath Ho Tar Ha Milal Bhi Urdu Ghaza;l

  کچھ سے ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا تیرا ہوال بھی دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی بات وو آدھی رات کی رات وو پوری چانڈ کی چاند بھی عین بات ہے ہمیں تیرا جمال بھی سب سے نظر بچا کے وو مجھ کو کچھ ایسا دیکھتا ہے۔ ایک دفا سے رکو گا. گارڈیش-ماہ-سال بھی دل سے چمک سکوں گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ لینا شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی ہم کو نہ پا کے جب دل کا آجیب حال تھا۔ اب جو پلٹ کے دیکھئے بات تھی کچھ محل بھی میری طالب تھا ایک شاہس وو جو نہیں ملا تو پھر ہاتھ دعا سے یون گرا بھول گیا سوال بھی گاہ قریب شاہ راگ گاہ بعید وہم واحباب پر روح کے اور جال بھی شام کی نا سماج ہاوا پوچھ رہی ہے ایک پتا

Sar Mainn Sodaa Bhi Nahin DiL Mainn Tamnaa Bhi Nahin Lakin Tak E Muhabat Ka Bhrosa Bhi Nahin Haii Urdu Ghazal

  سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں لیکِن ترکِ محبت کا بھروسہ بھی نہیں ہے۔ لیکن ہمیں جلوہ گاہ ناز سے اٹھا بھی نہیں مہربانی کو محبت نہیں کہتے ہیں دوست آہ اب مجھ سے تیری رنگیش-بیجا بھی نہیں ہے۔ اور ہم بھول گئے ہیں تمھیں ایسی بھی نہیں آج حفلت بھی ان انکھوں میں ہے پہلے سے سیوا آج ہی ہشتیرِ بیمار شکیبہ بھی نہیں بات یہ ہے کہ سکھوں دل وحشی کا مقام کنجِ زنداں بھی نہیں وُس۔اتِ سحر بھی نہیں ہیں سید ہمین گل ہیں ہمین بلبل ہیں۔ تم نے کچھ نہیں سنا بھی نہیں دیکھا بھی نہیں۔ آہ یہ مجمع احباب یہ بزمِ ہموش آج محفل میں 'فراق' سُہان آرا بھی نہیں تم بھی سچ ہے کی محبت پہ نہیں میں مجبور تم بھی سچ ہے کہ تیرا حسین کچھ ایسا بھی نہیں فطرتِ حسن سے عالم ہے تجھے ہمدم چرا ہی کیا ہے با جوز صبر تو ہوتا بھی نہیں مجھ سے ہم اپنے بورے سے نہیں کہتے کہ 'فراق ' ہے تیرا دوست مگر آدمی ہے اچھا بھی نہیں احزاب کیا ٹائر وڈے پہ احتساب کیا ۔ تمام رات قیام کا انتظار کیا ۔ کسی تارہ جو نہ ہم پر نہ احتساب کیا ۔ میری وفا نہ مجھ سے ہوب شرمسار کیا ہنسا ہنسا کے شب وصل اش