Skip to main content

Sugraan Ka Dopatta By Miss Bushra Bajwa Sahiba

      تحریر بشری باجوہ


 نام تو اس کا صغریٰ تھا مگر سب اسے سوگراں پکارتے تھے۔  جب کوئی اس کے گھر کے دروازے پر دستک دیتا یا گھر کے باہر آ کر کھنکارتا تو صغریٰ جھٹ سے اپنے سر پر دوپٹہ لپیٹ لیتی۔ اکثر اوقات اس کا دوپٹہ اس کے سر پر ہی رہتا۔  صغریٰ کا دوپٹہ بھی بڑے کام کی چیز ہے۔ اس دوپٹہ سے وہ ان گنت کام لیتی۔   صبح اٹھتے ہی اپنی آنکھوں پر دوپٹہ پھیر کر اپنی آنکھوں کو صاف کرتی۔ اپنا منہ ہاتھ دھونے کے بعد اسی دوپٹہ سے  خشک کرتی۔  چھوٹے کاکے کا منہ دھویا تو اسی دوپٹہ سے اس کے چہرے پر پھیر کر پانی  جزب کر لیا۔  بڑے یا چھوٹے کاکے کا ناک بہتا ہوا اس کے ہونٹوں کے نزدیک پہنچا تو اسی دوپٹہ کے پلو سے ناک، منہ رگڑ کر صاف کر دیا۔ ہانڈی پک جانے پر  چولہے سے اتارنے کے لیے اسی دوپٹہ کا پلو کام آیا۔ کھانا کھانے کے لیے بیٹھے تو سارے محلے کی مکھیاں کھانے کا سواد  چکھنے کے لیے اکٹھی ہو گئیں تو یہ ہی دوپٹہ  سر سے اتار کر مکھیاں ہٹانے کے کام آیا۔  گرمی لگی تو دوپٹہ کے پلو سے پنکھے کا کام لیا۔  مہمان آنے پر اس دوپٹہ سے دھلے ہوئے برتن خشک کر لیتی۔  پیاز کاٹتے ہوئے آنکھوں سے انسوؤں کی ندیاں رواں ہو جانے پر اسی دوپٹہ کو چہرے پر بہنے والی ندی میں ڈبو دیا۔  بھولی بسری یادیں آ گئیں یا میکے کی یاد ائی تو اسی دوپٹہ سے چہرے پر گرتے آنسوؤں کو صاف کر لیا۔ پپو کا ہاتھ پتنگ کی ڈور سے زخمی ہو گیا تو سوگراں نے جھٹ سے دوپٹہ کا پلو پھاڑ کر سرسوں کے تیل میں ڈبو کر پٹی باندھ دی۔  پانی بھرنے گئی تو یہ ہی دوپٹہ  لپیٹ کر سر پر رکھا اور گھڑے کو اس پر ٹکا دیا۔ دیوار سے سوکھے اپلے اتارے تو اسی دوپٹہ میں باندھ کر  رسوئی میں لے آئی۔ میاں کو بخار ہوا تو اسی دوپٹہ کو گیلا کر کے ماتھے پر رکھنے کے کام آیا۔۔ جب  میاں کے کندھے کا پٹھا کھنچا اور وہ درد سے کراہا تو سوگراں نے تیل کی مالش کر کے اپنے دوپٹہ کو اس کی گردن پر لپیٹ دیا۔  بار بار  مختلف کاموں کے لیے استعمال ہونے کی وجہ سے صغریٰ کا دوپٹہ میلا بھی جلدی ہو جاتا تو اسے صابن سے دھو کر بڑے کاکے کو دو کونے دوپٹہ کے پکڑا کر خود دوپٹہ کی  دوسری طرف سے کونے پکڑ کر بار بار دوپٹہ کو جھٹکتی....  پھر ماں بیٹا دوپٹہ پکڑ کر صحن کے دو پھیرے لگاتے۔ ابھی دوپٹہ میں نمی ہی ہوتی کہ کوئی کام یاد آ جانے پر اسی نم دوپٹہ کو  سر پر لپیٹ کر صغریٰ پھر سے مصروف ہو جاتی۔  صغریٰ کی زندگی  میں دوپٹہ بہت کام کی چیز ہے۔۔ صغریٰ نے اپنے دوپٹہ کے کونوں میں جا بجا گرہیں لگائی ہوتی ہیں کہ کچھ میں بزرگوں کی نصیحت بندھی رہتی ہیں اور کچھ میں کہ " میں بھول نہ جاؤں" اور پھر اسے خود ہی یاد نہیں رہتا کہ  اس نے دوپٹہ میں کس گرہ کو کس مقصد کے لیے لگایا تھا۔ گھر کی چابیاں اور روپے بھی اس  دوپٹہ کے کونے میں بندھے ہوتے ہیں۔ ایک  اکلوتا سوگراں کا دوپٹہ اور اس کی بے مثال مصروفیت۔



      تحریر بشری باجوہ




Comments

Popular posts from this blog

Harrr Aikk BAtt Pr Khety Ho TumM Ki Kia Haye TuM Kahu Kii AndAz GhuftoGo KIA Hye Urdu Ghazal

  ہر ایک بات پر کہتے ہو تم کی تم کیا ہے ۔ تم کہو کی تم اندازِ گفتگو کیا ہے کوئی باتو کی وو شوہ ٹنڈ-ہو کیا ہے تم رشک ہے کی وو ہوتا ہے ہم سوہان تم سے وگرنا ہوفِ بدِ آموزِ عدو کیا ہے جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا ۔ ہو جو اب جب آنکھوں سے نہ تپکا تو پھر لہو کیا ہے۔ وو چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز سیوا بدا گلفام مشک بو کیا ہے پیون شراب آگر ہم بھی دیکھ لو دو چار تم شیشہ او قضا اور کوزہ یا سب کیا ہے راہی نہ تختِ گفتار اور آگر ہو بھی کس امید پر کہیے کی آرزو کیا ہے؟ ہوا ہے شاہ کا مصاحب پھر ہے سفر واگرنا شہر میں 'حلب' کی آبرو کیا ہے

KuchH Syy HoVa Bhi SarD Thi Kucchh Tha Tera Hawal Bh Dil Ko KHushi Ky Sath Sath Ho Tar Ha Milal Bhi Urdu Ghaza;l

  کچھ سے ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا تیرا ہوال بھی دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی بات وو آدھی رات کی رات وو پوری چانڈ کی چاند بھی عین بات ہے ہمیں تیرا جمال بھی سب سے نظر بچا کے وو مجھ کو کچھ ایسا دیکھتا ہے۔ ایک دفا سے رکو گا. گارڈیش-ماہ-سال بھی دل سے چمک سکوں گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ لینا شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی ہم کو نہ پا کے جب دل کا آجیب حال تھا۔ اب جو پلٹ کے دیکھئے بات تھی کچھ محل بھی میری طالب تھا ایک شاہس وو جو نہیں ملا تو پھر ہاتھ دعا سے یون گرا بھول گیا سوال بھی گاہ قریب شاہ راگ گاہ بعید وہم واحباب پر روح کے اور جال بھی شام کی نا سماج ہاوا پوچھ رہی ہے ایک پتا

Sar Mainn Sodaa Bhi Nahin DiL Mainn Tamnaa Bhi Nahin Lakin Tak E Muhabat Ka Bhrosa Bhi Nahin Haii Urdu Ghazal

  سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں لیکِن ترکِ محبت کا بھروسہ بھی نہیں ہے۔ لیکن ہمیں جلوہ گاہ ناز سے اٹھا بھی نہیں مہربانی کو محبت نہیں کہتے ہیں دوست آہ اب مجھ سے تیری رنگیش-بیجا بھی نہیں ہے۔ اور ہم بھول گئے ہیں تمھیں ایسی بھی نہیں آج حفلت بھی ان انکھوں میں ہے پہلے سے سیوا آج ہی ہشتیرِ بیمار شکیبہ بھی نہیں بات یہ ہے کہ سکھوں دل وحشی کا مقام کنجِ زنداں بھی نہیں وُس۔اتِ سحر بھی نہیں ہیں سید ہمین گل ہیں ہمین بلبل ہیں۔ تم نے کچھ نہیں سنا بھی نہیں دیکھا بھی نہیں۔ آہ یہ مجمع احباب یہ بزمِ ہموش آج محفل میں 'فراق' سُہان آرا بھی نہیں تم بھی سچ ہے کی محبت پہ نہیں میں مجبور تم بھی سچ ہے کہ تیرا حسین کچھ ایسا بھی نہیں فطرتِ حسن سے عالم ہے تجھے ہمدم چرا ہی کیا ہے با جوز صبر تو ہوتا بھی نہیں مجھ سے ہم اپنے بورے سے نہیں کہتے کہ 'فراق ' ہے تیرا دوست مگر آدمی ہے اچھا بھی نہیں احزاب کیا ٹائر وڈے پہ احتساب کیا ۔ تمام رات قیام کا انتظار کیا ۔ کسی تارہ جو نہ ہم پر نہ احتساب کیا ۔ میری وفا نہ مجھ سے ہوب شرمسار کیا ہنسا ہنسا کے شب وصل اش