Skip to main content

Tameez Daar Machar By Bushra Bajwa Sahiba

 بشریٰ باجوہ

تمیز دار مچھر



ساری رات میری اور مچھر کی لڑائی ہوتی رہی۔ سب ہی مچھروں کی شکل       
     وصورت ایک سی ہی ہوتی ہے اس لیے مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک 
ہی مچھر مجھ پر بار بار حملہ آور ہوتا ہے۔
         
      نہ جانے کیوں..... رات کو یہ مچھر نہ خود سوتا ہے اور نہ ہی مجھے سونے دیتا  ہے۔ مچھر سے تنگ آکر سونے کا ارادہ ترک کر کے کچھ مطالعہ کرنے کی کوشش کی......تو ایک مچھر بے خوابی یا تنہائی......یا برہا کا مارا میرے ارد گرد پھیرے لگانے لگا۔ میں نے اس سے لاکھوں بار کہا کہ میرے ارد گرد پھیرے لگانے کا یا میرا طواف کرنے کا تجھے کچھ بھی فائدہ نہ ہو گا..... میں شمع نہیں ہوں.....کہ میں جل رہی ہوں کہ پروانے میرے ارد گرد پھیرے لگانے کو ثواب عشق....عبادت عشق خیال کریں اور نہ ہی تمہارے پر جلیں گے ..... نہ تم سوختہ دل و جگر ہو گے ......نہ تم اپنی جان ناتواں عشق کی راہ میں قربان کر کے شہید عشق کہلوا سکو گے۔ مجھے تمہاری جان لینے کا بھی شوق نہیں اس لیے حضرت مچھر تم مجھ سے دور ہی رہو۔ مچھر نے میری ایک نہیں سنی۔

معلوم نہیں کیوں یہ مچھر مجھ پر فریفتہ ہو رہا ہے۔  کبھی میرے چہرے کو چومتا ہے اور کبھی ہاتھوں کو۔  میرے پیروں کو تو اس مچھر نے چوم  چوم کر بے حال کر دیا ہے۔  اپنی عقیدت و محبت کے اظہار کے لیے بار بار میرے پیروں کے بوسے لیتا ہے۔


مچھر کے طواف اور پھیروں سے  تنگ آکر میں نے بہت  بار اپنے  ہاتھوں  سے مچھر کو بتانے کی  کوشش  کی  کہ مجھے نہ تو اس مچھر سے محبت  ہے نہ  عشق .....   بہت اس سے نفرت کا اظہار کیا بہت دھتکارا۔ بہت کوشش کی مچھر کو بتانے کی کہ مجھے اس کی قدم بوسی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس مچھر کی میری زات سے عشق محبت عقیدت اور قدم بوسی مجھے ڈینگی کر کے ہی رہے گی۔
مچھر کو خود سے دور کرنے کی کوشش میں مچھر کی ایک ٹانگ زخمی ہو گئی..... مگر وہ ابھی بھی میرے ارد گرد پھیرے لگا رہا ہے۔ ایسی ہوشیاری سے کہ میرے ہاتھ آ بھی نہیں رہا۔ پکڑنے لگتی ہوں تو میری نظروں کے سامنے ہی اڑتا ہوا لہراتا ہوا چھت تک جا پہنچتا ہے۔ اس مچھر کی ٹانگ زخمی ہونے کا اسے فرق ہی نہیں پڑا ۔ اس کی پرواز میں رتی بھر بھی کوتاہی نہیں آئی۔
 اپنے ماضی کے مچھروں کو یاد کرنے کی کوشش کی۔ دوسرے لفظوں میں اپنا ہی ماضی بعید یعنی کہ اپنا بچپن یاد کیا۔
میرے بچپن میں بھی مچھروں کی ثقافت ایسی ہی تھی۔ جب بھی رات کے وقت کتاب سامنے کھول کر مطالعہ کی کوشش کرتی تو ان مچھروں کی یلغار کتاب کا مطالعہ کرنے کا شوق لیے میرے سر کے ارد گرد گھومتے ہوئے ریں ریں کا راگ الاپ کر اونچے سروں میں میرے اسباق کا رٹا لگاتے۔ ایسے جیسے اگلے روز میرا نہیں بلکہ ان مچھروں کا امتحان ہو۔
اکثر محسوس ہوتا کہ مچھر طربیہ مشاعروں کے رسیہ ہیں ہر روز طرحی مشاعرہ کے ساتھ نئ سے نئ غزل ارشاد فرمایا کرتے یا کسی نئ دھن کے ساتھ نیا ناچ پیش کرتے۔ مجھے ان کی زبان سمجھ نہیں آتی تھی مگر لگتا کچھ ایسا ہی تھا جیسے کہ وہ اپنی زبان بہت روانی سے بول لیتے ہیں۔

مچھروں کی ریں ریں اور روں روں کے راگ سے میرے تو کان پکنا شروع ہو گئے۔ تب بھی مچھروں کا موسیقی اور لمبے سروں کی تال پر ناچنا مجھے بھاتا نہیں تھا۔ نہ تو ان کا گانا، باجا اور نہ ہی ناچنا۔
ترکی کے صوفیانہ ناچ کی طرح یہ مچھر اپنے ہی محور کے گرد چکر لگاتے تو مجھے اعتراض نہیں ہوتا.....  یہ مچھر تو میرے گرد پھیرے لگاتے ہوئے     اودھم مچاتے تھے۔
معبدولت سے مچھروں کی محبت و الفت کا انداز تھا...... میرے ارد گرد ہر طرف مچھر ہی مچھر ہوتے۔ تب خواب و خیال اور دماغ کی سوچوں میں مچھر گھسے ہوتے۔ کھلی ہوئی کتاب میں الفاظ کی جگہ مچھر ہی مچھر نظر آتے......       کتاب چھوڑ کر میں مچھروں کے سروں اور کتھا کا مطلب کھوجنے کی کوشش کرتی ۔

بہت عرصہ یہ ہی سوچتی رہی کہ اس دور کے مچھر بہت تمیز والے ہو گئے ہیں رقص تو کرتے ہیں مگر موسیقی کے ساتھ نہیں.... ریں ریں کا راگ نہیں الاپتے نہ ہی کانوں کے پاس باجا بجاتے ہیں۔ بہت بار دوسروں کے سامنے زکر بھی کیا کہ اب مچھر سمجھ دار ہو گئے ہیں.... مچھر اب ریں ریں کا راگ نہیں الاپتے۔
واہ کیا زمانہ تھا..... شوخ و شنگ مچھر کہاں کھو گئے...... اب تو ہر طرف   سنجیدہ اور رنجیدہ مچھروں سے پالا پڑ رہا ہے۔
میری بات پر کسی نے حیرت کا اظہار نہیں کیا۔ اس لیے میں یہ ہی سمجھتی رہی کہ میں درست کہہ رہی ہوں۔ واقعی ہی آج کے دور کے مچھر بنا آواز کے رقص کرتے ہیں یا شاید اپنے منہ کے سامنے اپنا لاؤڈ اسپیکر لگانا بھول گئے ہیں۔ شاید میرے بچپن کے دور کے مچھروں کا بھی بچپن ہی تھا۔ شوخیاں اور قہقہے ان کی زندگی کا حصہ تھے۔ اب وہ عمر رسیدگی کی وجہ سے سنجیدہ ہو چکے ہیں.....           گانا بجانا اور قہقہے لگانا بھول گئے ہیں۔

بچپن اور اس دور کے مچھر یاد آئے تو اپنے بیتے ہوئے دن، ماہ و سال کا حساب کیا۔ اپنی ذات پر غور وفکر کیا تو جانا کہ میری دونوں ٹانگیں قبر میں لٹکی ہوئی ہیں۔ یعنی کہ میں ایک لمبا عرصہ دنیا میں گزار چکی ہوں اورمچھر خاموش نہیں ہوئے بلکہ میرے کان ہی مجھے دغا دے چکے ہیں..... میں اس دور کے مچھروں کو شاباش دے رہی تھی کہ اب مچھر سمجھ دار اور تمیز والے ہو گئے ہیں۔ خاموش رہ کر خاموشی سے کارگزاری کرتے


 بشریٰ باجوہ


Read More About Bushra Bajwa Sahiba Click Here

Comments

Popular posts from this blog

Abb Chalakty Hoe Sagir Nhin Dakhy Jaty Tooba Ky Bad Ya Manzir Nhin Dakhy Jaty Urdu Ghazal By Ali Ahmed Jalili

  اب چھلکتے ہوئے ساغر نہیں دیکھے جاتے توبہ کے بعد یہ منظر نہیں دیکھے جاتے مست کر کے مجھے اوروں کو لگا منہ ساقی یہ کرم ہوش میں رہ کر نہیں دیکھے جاتے ساتھ ہر ایک کو اس راہ میں چلنا ہوگا عشق میں رہزن و رہبر نہیں دیکھے جاتے ہم نے دیکھا ہے زمانے کا بدلنا لیکن ان کے بدلے ہوئے تیور نہیں دیکھے جاتے علی احمد جلیلی  

Mat Qatal Kro Awazoon Ko Poem By Ahmad Faraz | Raaz Ki Batain | Khuwab Naak Afsane

مت قتل کرو آوازوں کو تم اپنے عقیدوں کے نیزے ہر دل میں اتارے جاتے ہو ہم لوگ محبت والے ہیں تم خنجر کیوں لہراتے ہو اس شہر میں نغمے بہنے دو بستی میں ہمیں بھی رہنے دو ہم پالنہار ہیں پھولوں کے ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں تم کس کا لہو پینے آئے ہو ہم پیار سکھانے والے ہیں اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے جب حرف یہاں مر جائے گا جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی جب شعر سفر کر جائے گا جب قتل ہوا سر سازوں کا جب کال پڑا آوازوں کا جب شہر کھنڈر بن جائے گا پھر کس پہ سنگ اٹھاؤ گے اپنے چہرے آئینوں میں جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے (احمد فراز)

Lyjati Hy Us Simat Hamy Gardish Doran Ay Dost Kharabat Sy Kia Kam Hamara Urdu Ghazal By Syed Abdul Hameed Adam

لے جاتی ہے اُس سمت ہمیں گردشِ دوراں اے دوست، خرابات سے کیا کام ہمارا کر لیتے ہیں تخلیق کوئی وجہِ اذیّت بھاتا نہیں خُود ہم کو بھی آرام ہمارا اے گردشِ دوراں یہ کوئی سوچ کی رُت ہے کمبخت ابھی دَور میں ہے جام ہمارا اِس بار تو آیا تھا اِدھر قاصدِ جاں خُود سرکار کو پہنچا نہیں پیغام ہمارا پہنچائی ہے تکلیف بہت پہلے ہی تُجھ کو اے راہ نُما، ہاتھ نہ اب تھام ہمارا اے قافلہء ہوش گَنوا وقت نہ اپنا پڑتا نہیں کُچھ ٹھیک ابھی گام ہمارا گُل نوحہ کُناں اور صنم دَست بہ سِینہ اللہُ غنی! لمحہء اَنجام ہمارا     سیّد عبدالحمید عدم