مجھے منظر سے باہر اب نکلنا ہے
اجالا جس طرح کا ہو
اندھیرے کا پڑوسی ہے
پڑوسی گرچہ کافر ہو
وہ اپنا حق تو رکھتا ہے
پرندوں اور درختوں کا بھی حق ہے
محبت سب کے اندر ہے
پرندہ ہے، زمیں کا کوئی خطہ ہے
نہ تختی ہے مکانوں کی
محبت اک مسافر ہے
مسافر گر مکیں ہوگا
تو وہ تالاب کا پانی
ہر اک ندیا سمندر کا کنارہ ہے
مجھے کس نے پکارا ہے
مجھے منظر سے باہر اب نکلنا یے
مجھے میرا ارادہ چاہیے ہے
مرے سارے تعلق واسطے مرہون ہیں اس کے
ارادہ وہ جو نیت کا بھی تابع ہے
کوئی نیت ثمر آور نہیں ہوتی اکیلے میں
اسے بھی آئنہ درکار ہوتا ہے"
مجھے منظر سے باہر اب نکلنا ہے
"مرے مرشد
مجھے تو ناچ گانے سے بہت رغبت رہی ہے
یہ سجدے میری پیشانی کا سورج بن نہیں سکتے
مجھے کچھ مردہ روحوں کی بھی سرگوشی سے دلچسپی رہی ہے
مری گٹھری میں جادو کے بھی گولے ہیں.
اجازت ہے! میں ایسا رخت اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہوں"
صدا کی گونج باقی ہے
"اجازت ہے"
Comments
Post a Comment