Skip to main content

Roti Nahi Izzat By Iftikhar Iffi sahab




ایوان صدر میں پرویز مشرف پرعزم لہجے میں بولا اشفاق احمد صاحب میں طاقت ور بھی ھوں پر عزم اور تواناں بھی " آپ بتائیں اس قوم کے لئے کیا کروں" 
بابا اشفاق احمد نے نہایت ادب اور متانت سے کہا
صدر صاحب اس کو قوم ایک کندھے کی ضرورت ہے کسی اپنے کے کندھے کی اس قوم کو وہ کندھا دیدیں جس پر یہ اپنا سر رکھ کر رو سکیں دل کا حال کہہ سکیں ۔
میں حیرت سے بابا دین محمد کی طرف دیکھ رہا تھا ۔میں نے پوچھا بابا جی اشفاق احمد صاحب نے صدر پاکستان پرویز مشرف سے یہ کیسا تقاضا کرڈالا 
قوم کے لئے کوئی یونیورسٹی کوئی ہسپتال کوئی روزگار کے مواقع کچھ ایسا مانگتے جو اس قوم کی حالت درست کرتی
بابا دین محمد مسکرایا ۔
بولا افتخار افی تم جن سہولتوں کی فراوانی کو قوم کی ضرورت سمجھتے ہو وہ اسکی ہرگز ضرورت نہیں ہے ۔
جانتے ھو جب کسی قوم کی عزت نفس مجروح کردی جائے تو پھر آسائشیں اور سہولتیں بیمعانی ھو جاتی ہیں ۔
بابا دین محمد کی باتیں میرے سر سے گزر رھی تھیں ۔ مجھے لگا یہ کوئی بابا وابا نہیں ہے ایویں بونگیاں مارتا ہے ۔اپنی عمر کا فائدہ اٹھاتا ہے اور میں اسکی بلاوجہ عزت کرتا ہوں ۔
میں نے کہا بابا جی غربت افلاس بھوک بےروزگاری تنگ دستی نے 90 فیصد کو ہلکان کررکھا ہے لوگ آپس میں جھگڑ رہے ہیں ۔ ماں اپنے بچوں سمیت ٹرین کے آگے کود جاتی ھے 

موسی خان جیسا سیکرٹریٹ کا کلرک اپنے بچوں کے عید کے کپڑے نہ بنا سکنے پر مینار پاکستان سے کود کر خود کشی کرلیتا ہے ۔ اور اشفاق صاحب صدر سے قوم کے لئے کندھا مانگ رہے تھے ۔
بابا دین محمد بولا ان تمام خرابیوں کی وجہ ہی بتا رہا ھوں جانتے ھو

80 کی دھائی میں اشفاق صاحب کو صدر جنرل ضیاء الحق نے بھی بلا کر پوچھا تھا کہ اس قوم کے لئے کیا کروں؟
اشفاق احمد صاحب نے اس وقت بھی یہی کہا تھا کہ اس قوم کی عزت نفس بحال کردیں۔

جس پر صدر موصوف خفا ھوئے تھے کہ ان کی ڈکٹیٹر شپ پر پھبتی کسی ہے اشفاق صاحب نے ۔
میں نے کہا بابا جی کونسی عزت نفس؟ اور کندھا کیا کرنا ھے قوم نے؟
بابا دین محمد بولا افتخار افی بیٹا بات آج کی نہیں یہ صدیوں پرانہ قصہ ہے ۔

صدیوں سے اس خطے پر بیرونی حملہ آور حکومت کرتے آئے ہیں ۔
اسلام آنے سے پہلے اور بعد میں اس خطے پر لوکل باشندوں کو کبھی حکومت نہیں کرنے دی گئی 
میں نے کہا بابا جی یہ مغل بادشاہ کیا مسلمان نہیں تھے؟
بابا بولا میں مسلم یا غیر مسلم کی نہیں مقامی لوگوں کی حکومت کی بات کررہا ہوں ۔
میں نے پوچھا بابا جی بیرونی حملہ آوروں کو کیا دلچسپی تھی قدیم ہندوستان سے ۔
بولا کیوں کہ یہ خطہ سرسبز و شاداب تھا دریا بہتے تھے کھیت کھلیان سونا اگلتے تھے ہندوستان کے لوگ خوش حال تھے ۔ اس لئے بیرونی حملہ آور یہاں آتے قبضہ کرتے لوٹ مار کرتے اور جب تک اگلا بیرونی حملہ آور ان کا خاتمہ نہ کر دیتا وہ قابض حکمران جی بھر کے یہاں کے مقامی لوگوں کی عزت نفس پامال کرتا۔
میں نے کہا بابا جی یہ بیرونی حملہ آوروں کا سلسلہ شروع کہاں سے ھوا؟

بابا بولا قدیم سندھ طاس دور اس خطے کا بہترین دور تھا
مقامی لوگ حکمران تھے سندھ اور سرسوتی کی تہذیب عروج پر تھی یہاں کے لوگ اپنے حکمرانوں کے زیر اثر باعزت زندگی گزار رہے تھے یہ 2500 قبل مسیح کی بات ھے ۔ ادب مقامی زبانوں میں پنپ رہا تھا ۔
سب اچھے کی آواز تھی ۔ اس کے بعد ویدک دور آیا اور ایشیا سے آریہ لوگ حملہ آور ھوئے ۔
اسی دور میں مہابھارت رامائن اور وید لکھی گئی ۔
پھر کسی نے سکندر یونانی کو اچکل دی وہ صاحب بھی لشکر لیکر اس طرف نکل آئے ۔ خوب لوٹ مار کی عزتیں روندھیں سکندر اعظم کے بعد موریہ دور شروع ھوا 
اس کے بعد گپت خاندان کی حکمرانی آئی یہ مقامی لوگ تھے اس حکومت پر بھی منگولوں کی اولادوں نے شب خون مارا اور ہن لوگ یہاں قابض ھوگئے۔منگول بھی بیرونی تھے۔
تم قطب الدین ایبک کو دیکھ لو 
غوری کے مرنے کے بعد غوری حکومت کے ہندوستانی حصہ پر ایبک صاحب نے حکومت کا اعلان کردیا۔
گھوڑے سے گر کر مرنے کے بعد ایبک کا نااہل بیٹا "آرام شاہ" تخت نشین ہوا

آرام شاہ سچ مچ آرام پسند تھا اسے ہٹا کر قطب الدین ایبک کا غلام التتمش برسراقتدار آیا۔التتمش ایبک کا داماد تھا اور ترک تھا
یوں تاج ہندوستان خاندان غلاماں کی بھینٹ چڑھ گیا التتمش کے بعد اسی کی بیٹی رضیہ سلطانہ ملکہ ہندوستان بنی ۔ خاندان غلاماں کو خلجیو نے اتار دیا ۔
خلجی بھی مقامی نہیں تھے پھر تغلق آئے سید آئے اسکے بعد لودھی ہندوستان کے لاوارث تخت پر آدھمکے 
لودھی کو بابر نے مارا اور مغلیہ سلطنت کا آغاز ھوگیا۔
مغل بھی مقامی نہیں تھے ۔

مغلوں کا سورج ڈوبا تو فرنگی ہندوستان پر قابض ھوگیا۔
انگریز بھی مقامی نہیں تھا۔ ہر قبصہ گروپ نے اپنی اپنی زبانوں کو ہم پر سرکاری زبان کا ٹھپہ لگا کر تھوپ دیا جس کیوجہ سے یہاں کی مقامی زبانوں کو ناقابل تلافی نقصان ھوا 
ہر قابض نے اپنے کلچر کو لاگو کیا جس کی وجہ سے یہاں کا کلچر چوں چوں کا مربہ بن گیا ۔ اور لوگ آدھے تیتر آدھے بٹیر بن گئے ۔ فرقہ زبان دھرم رنگ و نسل اور ذات پات نے سندھ اور سرسوتی تہذیب کو داغ دار کردیا مقامی باشندے تقیسم ھوگئے۔
میں بابا کی بتائی ہوئی تاریخ کو ازبر کررہا تھا ۔
بابا کی بوڑھی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
میں نے کہا بابا جی شہاب الدین غوری سے بہادر شاہ ظفر تک ہمیں فخر نہیں کرنا چاہئے؟
بابا بولا بیٹا میں بات کررہا ہوں کہ یہاں مقامی لوگوں کی حکومت نہ ھونے کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کی عزت نفس مسلسل کئی صدیوں سے پامال ھوتی آرہی ہے ۔ 
سوچو جب ملک کی مالک قوم کو حکمرانی نہیں کرنے دی جائے گی تو مقامی لوگوں کے مسائل حل نہیں ھونگے ۔ مقامی لوگ اپنی مرضی اور اپنی آسائیشوں کے فیصلے نہیں کر پائیں گے ۔

ہندوستان کے رہنے والے صدیوں سے غلامی برداشت کرتے آئے ۔ 
احساس محرومی حق تلفی استحصال اور غصہ بام عروج پر تھا کہ اس قوم کو لوکل قیادت نصیب ھوئی اور وہ عظیم قیادت تھی قائد اعظم محمد علی جناح( رح ) 
جناح مقامی تھے اور یہاں کے لوگو کے بنیادی مسائل سے واقف تھے بہت لمبے عرصے بعد مسلمانوں کو کسی اپنے کی قیادت ملی اور دیکھتے ہی دیکھتے بیرونی آقا انگریز سرکار نے گھنٹے ٹیک دیئے ۔اور پیارا پاکستان بن گیا امید تھی کہ اپنے لوگ اپنے عوام کی عزت نفس بحال کرینگے مگر حالت کا تقاضہ تھا یا شاید قوم کی بدقسمتی کہ یہاں بھی عام آدمی کی نمائندگی نہ ھوسکی 

میں نے کہا بابا جی جمہوریت ہے تو یہاں ۔ 
بابا بولا بیٹا 70 میں سے 40 سال مارشل لاء لگا رھا ۔ جانتے ھو محکوم قوم کبھی آزاد قوموں کی طرح نہیں سوچ سکتی اور جب غلامانہ سوچ پروان چڑھے تو آپا دھاپی جنم لیتی ہے سب کو اپنی اپنی پڑ جاتی ہے ۔ اجتماعیت کی جگہ انفرادیت لے لیتی ہے۔ بےچینی اور افراتفری پیدا ھوتی ہے ۔ لوگ اور ان کی سوچ بٹ جاتی ھے پھر یک جہتی فوت ھوجاتی ھے ۔ پھر تقسیم در تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ھوجاتا ھے غصہ دلوں پر قابض ھوجاتا ھے 
تم نے کبھی سوچا ہے کہ جب بجلی نہیں آتی تو عام پاکستانی کی حق تلفی ھوتی ھے ۔ جب انصاف نہیں ملتا تو عام پاکستانی کی عزت نفس مجروح ھوتی ھے ۔
جب برابری کا سلوک نہیں ھوتا تو عام پاکستانی کی عزت نفس مجروح ھوتی ھے ۔ 

جب پاکستانی پاسپورٹ کو نگاہ کم سے دیکھا جاتا ہے تو عام پاکستانی کی عزت نفس مجروح ھوتی ھے ۔ 
جب ڈگری ہولڈر نوجوان کے بجائے سفارشی کم پڑھے لکھے کو نوکری مل جاتی ھے تو پوری قوم کی عزت نفس مجروح ھوتی ھے ۔ 
صاف پانی ۔ تعلیم۔ صحت ۔ چھت نہیں ملتی تو عام پاکستانی کی عزت نفس مجروح ھوتی ھے ۔ جب قوم سے کئے وعدے حکمران پورے نہیں کرتے تو قوم کی عزت نفس مجروح ھوتی ھے 
خدا کی قسم میری قوم کو کچھ مت دو ۔ روٹی کپڑا دولت یہ قوم خود کما لے گی بس اسے عزت دو اس قوم کی عزت نفس بحال کرو ۔
اسے ایک کندھا دو کسی اپنے کا کندھا جس پر سر رکھ کے یہ عام آدمی رو سکے دل کی بات کرسکے ۔ 
اس قوم کی صدیوں سے پامال عزت نفس بحال کردو پاکستان دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک بن جائے گا ۔
بابا روتا ہوا پارک سے باہر نکل گیا ۔ 
اور مجھے ہر بندے کے چڑچڑے پن۔ غصے اور جھگڑالو ھونے کی وجہ سمجھ آگئی ۔ اور بابا جی اشفاق احمد صاحب کی وہ تاکید بھی سمجھ آگئی کہ افتخار پتر ہر بندے کی تعریف کیا کر مسکرا کے بات کیا کر اور معاف کردیا کر ۔
دراصل بابا جی اشفاق احمد صاحب خود عمر بھر قوم کی عزت نفس بحال کرنے میں کوشاں رھے اور اب یہ کام میں کرونگا جس حد تک کرسکا 

انشاءاللہ 




Comments

Popular posts from this blog

Harrr Aikk BAtt Pr Khety Ho TumM Ki Kia Haye TuM Kahu Kii AndAz GhuftoGo KIA Hye Urdu Ghazal

  ہر ایک بات پر کہتے ہو تم کی تم کیا ہے ۔ تم کہو کی تم اندازِ گفتگو کیا ہے کوئی باتو کی وو شوہ ٹنڈ-ہو کیا ہے تم رشک ہے کی وو ہوتا ہے ہم سوہان تم سے وگرنا ہوفِ بدِ آموزِ عدو کیا ہے جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا ۔ ہو جو اب جب آنکھوں سے نہ تپکا تو پھر لہو کیا ہے۔ وو چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز سیوا بدا گلفام مشک بو کیا ہے پیون شراب آگر ہم بھی دیکھ لو دو چار تم شیشہ او قضا اور کوزہ یا سب کیا ہے راہی نہ تختِ گفتار اور آگر ہو بھی کس امید پر کہیے کی آرزو کیا ہے؟ ہوا ہے شاہ کا مصاحب پھر ہے سفر واگرنا شہر میں 'حلب' کی آبرو کیا ہے

KuchH Syy HoVa Bhi SarD Thi Kucchh Tha Tera Hawal Bh Dil Ko KHushi Ky Sath Sath Ho Tar Ha Milal Bhi Urdu Ghaza;l

  کچھ سے ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا تیرا ہوال بھی دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی بات وو آدھی رات کی رات وو پوری چانڈ کی چاند بھی عین بات ہے ہمیں تیرا جمال بھی سب سے نظر بچا کے وو مجھ کو کچھ ایسا دیکھتا ہے۔ ایک دفا سے رکو گا. گارڈیش-ماہ-سال بھی دل سے چمک سکوں گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ لینا شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی ہم کو نہ پا کے جب دل کا آجیب حال تھا۔ اب جو پلٹ کے دیکھئے بات تھی کچھ محل بھی میری طالب تھا ایک شاہس وو جو نہیں ملا تو پھر ہاتھ دعا سے یون گرا بھول گیا سوال بھی گاہ قریب شاہ راگ گاہ بعید وہم واحباب پر روح کے اور جال بھی شام کی نا سماج ہاوا پوچھ رہی ہے ایک پتا

Sar Mainn Sodaa Bhi Nahin DiL Mainn Tamnaa Bhi Nahin Lakin Tak E Muhabat Ka Bhrosa Bhi Nahin Haii Urdu Ghazal

  سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں لیکِن ترکِ محبت کا بھروسہ بھی نہیں ہے۔ لیکن ہمیں جلوہ گاہ ناز سے اٹھا بھی نہیں مہربانی کو محبت نہیں کہتے ہیں دوست آہ اب مجھ سے تیری رنگیش-بیجا بھی نہیں ہے۔ اور ہم بھول گئے ہیں تمھیں ایسی بھی نہیں آج حفلت بھی ان انکھوں میں ہے پہلے سے سیوا آج ہی ہشتیرِ بیمار شکیبہ بھی نہیں بات یہ ہے کہ سکھوں دل وحشی کا مقام کنجِ زنداں بھی نہیں وُس۔اتِ سحر بھی نہیں ہیں سید ہمین گل ہیں ہمین بلبل ہیں۔ تم نے کچھ نہیں سنا بھی نہیں دیکھا بھی نہیں۔ آہ یہ مجمع احباب یہ بزمِ ہموش آج محفل میں 'فراق' سُہان آرا بھی نہیں تم بھی سچ ہے کی محبت پہ نہیں میں مجبور تم بھی سچ ہے کہ تیرا حسین کچھ ایسا بھی نہیں فطرتِ حسن سے عالم ہے تجھے ہمدم چرا ہی کیا ہے با جوز صبر تو ہوتا بھی نہیں مجھ سے ہم اپنے بورے سے نہیں کہتے کہ 'فراق ' ہے تیرا دوست مگر آدمی ہے اچھا بھی نہیں احزاب کیا ٹائر وڈے پہ احتساب کیا ۔ تمام رات قیام کا انتظار کیا ۔ کسی تارہ جو نہ ہم پر نہ احتساب کیا ۔ میری وفا نہ مجھ سے ہوب شرمسار کیا ہنسا ہنسا کے شب وصل اش