اک نوحہ گر کی تلاش ہے جو اپنی درد بھری آواز میں سنائے قصہ میرے بانجھ معاشرے کے ان بانجھ مردوں کا جن کی انا کے مینار اتنے بلند ہیں کہ میری مائیں بہنیں اور آنے والی نسل کی بیٹیاں گلی گلی گھر گھر مجبور ہیں خود پہ بانجھ پن کا لیبل لگوانے پر اپنی ممتا کا گلا گھونٹ کر ناجائز صبر کی پیڑھی پر بیٹھنے پر وہ کہتی ہیں ہم بے جرم و خطا قیدی ہیں ہماری سونی گود کا مجرم اور کوئی ہے یہاں حق سچ کہنے والوں کی کمی ہے بس اک نوحہ گر کی تلاش ہے جو اپنی درد بھری آواز میں سنائے ان تندرست عورتوں کی کہانی جو گرم سرد رات کے پچھلے پہر اپنے دائیں بائیں کچھ ٹٹولتے ہوئے آسمان کی جانب شکوہ کناں نظر ڈال کر سوال کرتی ہیں میرے حصے کی ممتا کہاں لٹائی؟ میری تندرست کوکھ اجڑی کیوں کہلائی؟ مجھےکس گناہ کی سزا ملی؟ اے منصف! اس قید سے رہائی دلا۔ اب ضبط کا دامن چھوٹتا ہے اب وقت ہے اصل مجرم کے سماج کے کٹہرے میں پیش ہونے کا میری خالی گود کرلاتی ہے اپنے حصے کا انصاف چاہتی ہے۔ زہرا تنویر Click Here to Read More About Zahra Tanveer Urdu Poetry...