Skip to main content

Ek Noha Garr Ki Talash Hai By Zahra Tanveer



جو اپنی درد بھری آواز میں سنائے

قصہ میرے بانجھ معاشرے کے
ان بانجھ مردوں کا
جن کی انا کے مینار اتنے بلند ہیں
کہ میری مائیں بہنیں اور آنے والی نسل کی بیٹیاں
گلی گلی گھر گھر مجبور ہیں
خود پہ بانجھ پن کا لیبل لگوانے پر
اپنی ممتا کا گلا گھونٹ کر ناجائز صبر کی
پیڑھی پر بیٹھنے پر
وہ کہتی ہیں
ہم بے جرم و خطا قیدی ہیں
ہماری سونی گود کا مجرم اور کوئی ہے
یہاں حق سچ کہنے والوں کی کمی ہے
بس اک نوحہ گر کی تلاش ہے
جو اپنی درد بھری آواز میں سنائے
ان تندرست عورتوں کی کہانی
جو گرم سرد رات کے پچھلے پہر اپنے دائیں بائیں کچھ ٹٹولتے ہوئے
آسمان کی جانب شکوہ کناں نظر ڈال کر سوال کرتی ہیں
میرے حصے کی ممتا کہاں لٹائی؟
میری تندرست کوکھ اجڑی کیوں کہلائی؟
مجھےکس گناہ کی سزا ملی؟
اے منصف! اس قید سے رہائی دلا۔
اب ضبط کا دامن چھوٹتا ہے
اب وقت ہے اصل مجرم کے
سماج کے کٹہرے میں پیش ہونے کا
میری خالی گود کرلاتی ہے
اپنے حصے کا انصاف چاہتی ہے۔




Comments

Popular posts from this blog

Abb Chalakty Hoe Sagir Nhin Dakhy Jaty Tooba Ky Bad Ya Manzir Nhin Dakhy Jaty Urdu Ghazal By Ali Ahmed Jalili

  اب چھلکتے ہوئے ساغر نہیں دیکھے جاتے توبہ کے بعد یہ منظر نہیں دیکھے جاتے مست کر کے مجھے اوروں کو لگا منہ ساقی یہ کرم ہوش میں رہ کر نہیں دیکھے جاتے ساتھ ہر ایک کو اس راہ میں چلنا ہوگا عشق میں رہزن و رہبر نہیں دیکھے جاتے ہم نے دیکھا ہے زمانے کا بدلنا لیکن ان کے بدلے ہوئے تیور نہیں دیکھے جاتے علی احمد جلیلی  

Mat Qatal Kro Awazoon Ko Poem By Ahmad Faraz | Raaz Ki Batain | Khuwab Naak Afsane

مت قتل کرو آوازوں کو تم اپنے عقیدوں کے نیزے ہر دل میں اتارے جاتے ہو ہم لوگ محبت والے ہیں تم خنجر کیوں لہراتے ہو اس شہر میں نغمے بہنے دو بستی میں ہمیں بھی رہنے دو ہم پالنہار ہیں پھولوں کے ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں تم کس کا لہو پینے آئے ہو ہم پیار سکھانے والے ہیں اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے جب حرف یہاں مر جائے گا جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی جب شعر سفر کر جائے گا جب قتل ہوا سر سازوں کا جب کال پڑا آوازوں کا جب شہر کھنڈر بن جائے گا پھر کس پہ سنگ اٹھاؤ گے اپنے چہرے آئینوں میں جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے (احمد فراز)

Lyjati Hy Us Simat Hamy Gardish Doran Ay Dost Kharabat Sy Kia Kam Hamara Urdu Ghazal By Syed Abdul Hameed Adam

لے جاتی ہے اُس سمت ہمیں گردشِ دوراں اے دوست، خرابات سے کیا کام ہمارا کر لیتے ہیں تخلیق کوئی وجہِ اذیّت بھاتا نہیں خُود ہم کو بھی آرام ہمارا اے گردشِ دوراں یہ کوئی سوچ کی رُت ہے کمبخت ابھی دَور میں ہے جام ہمارا اِس بار تو آیا تھا اِدھر قاصدِ جاں خُود سرکار کو پہنچا نہیں پیغام ہمارا پہنچائی ہے تکلیف بہت پہلے ہی تُجھ کو اے راہ نُما، ہاتھ نہ اب تھام ہمارا اے قافلہء ہوش گَنوا وقت نہ اپنا پڑتا نہیں کُچھ ٹھیک ابھی گام ہمارا گُل نوحہ کُناں اور صنم دَست بہ سِینہ اللہُ غنی! لمحہء اَنجام ہمارا     سیّد عبدالحمید عدم