Skip to main content

Punjab Rang Novel Billa Episode 1 By Zafar Iqbal Muhammad

پنجاب رنگ - " بِلّا" 1

از قلم ظفرجی





بِلّے کے باپ نے اس سال ایک سیکنڈ ھینڈ ٹریکٹر کیا خریدا بِلّے کی تو موجیں ہی لگ گئیں-

وہ سارا دن اسے کھیتوں میں بیل کی طرح دوڑاتا اور شام تک کئ ایکڑ زمین واہ کر گھر آتا- دن بھر لالیوں کے ڈار اس کے پیچھے پیچھے ہوتے-

"لالی" مینا سے مشابہ پرندہ ہے جو وسطی پنجاب میں بکثرت پایا جاتا ہے- اسے "ھندی مینا" بھی کہتے ہیں- یہ تازہ کھُدی سوندھی مٹی پر عاشق ہیں-

بلّا یوں چوڑا ہو کر ٹریکٹر چلاتا گویا گاؤں کی کُڑیاں اس کے چار چفیرے پھڑپھڑاتی پھرتی ہوں-

کسی الہڑ مٹیار کو آتا دیکھ کر وہ ٹریکٹر کے چھوٹے سے شیشے میں اپنی شکل دیکھتا ، دائیں گال پر اُگے "موکے" پر انگل پھیرتا اور گندے گندے دانت نکال کر کہتا ....
"صدقے جائیے .... ساڈے تے کوئ مردی ای نئیں ... !!!"

کپاس کی چنائ کے آخری دِن تھے- اس دن بے بے ڈیرے پر نہ آئ تو بلّے کو خود ہی "چونڑیوں" میں روئ بانٹنی پڑی- اسی روز وہ ایک شوخ چونڑیں پر مر مِٹا-

روئ سی رنگت والی اس کُڑی کا نام تھا "لالی"-

پھُٹّی کا آٹھواں حصہ وصولتے ہوئے اس نے بڑی ادا سے کہا
"اِنّی تھوڑی رُوں .... ویخ مینوں بھکھڑا وی پُڑیا ... "

بِلّے کا دل زور سے دھڑکا- اُس نے لالی کے نازک پاؤں کی طرف دیکھا ، جہاں بھکھڑے کا کانٹا اپنا سرخ نشان چھوڑ چکا تھا- اسے یوں لگا جیسے سفید روئ پر سرخ سرخ بُھونڈی منڈلا رہی ہو-

بِلّے کے دل میں پیار کا شعلہ بھڑکا-اس نے روئ کی پوری پَنڈ "لالی" کے سامنے پھینکتے ہوئے کہا ...

"توں اِک پھُل منگیا سارا باگ حوالے !!"

اس کےبعد دونوں میں خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا- محمد دین کی پرالی میں نصف شب ہونے والی ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور زیربحث آئے- دارے والے کھوہ پر بعد از مغرب "میثاقِ محبّت" سائن ہوا- حاجی والے ناکے پر تہجّد کے وقت " دفاعی معاہدات" پر دستخط ہوئے ، میاں بخش والے کماد میں شکّر دوپہری خِطّے کی صورتحال کو نازک قرار دیتے ہوئے ایٹمی پروگرام جاری رکھنے کا عزم کیا گیا-

اس کے بعد وہی کچھ ہوا جو پیار محبت کے قصّوں میں ازل سے ہوتا چلا آیا ہے-

دونوں کے بیچ فرق انیس بیس کا تھا- بِلّا 19 چک کا رہائشی تھا اور "لالی" 20 چک کی-
19 چک میں ڈوگرہ راج تھا تو 20 چک میں جٹوں نے انت مچا رکھی تھی- ضد اس بلاء کی تھی کہ جٹ اگر ڈرل کے ذریعے گندم کاشت کرتا تو ڈوگر "چھٹّا" دیکر اپنی ضد پوری کرتے ، چاہے فصل اُگے نہ اُگے-

سیاسی جھنڈے بھی دونوں پنڈوں کے الگ الگ تھے- پارٹی منشور سے زیادہ دلوں کا ناسور بولتا تھا- جب ڈوگروں نے "تلوار" کو ووٹ دئے تھا تو جٹ "نو ستاروں" پر مرمٹے تھے- اسی طرح جٹوں نے "سائیکل" کا ھینڈل تھاما تو ڈوگروں نے اُڑتا "تیر" پکڑ لیا-

ان دنوں بھی ایک پِنڈ بیٹ اٹھائے پھرتا تھا تو دوسرا "شیر" کی سواری کا لطف لے رہا تھا-

بلّے نے ماں باپ کو اپنی پسند سے آگاہ کیا- بےبے نے دلجوئ کےلئے بس اتنا ہی کہا
" ویکھاں گے ... توں وڈّا ہو جا بس"
مگر بلے کا باپ فقیریا اکڑ گیا-

"یاد رکھ پُت .... کیکر نوں اَک دا تے ڈوگر نوں جٹ دا پیوند کدّی نئیں لگ سکدا"

وہ سارا دن ابّا کے ترلے منتیں کرتا رہا مگر بات نہ بن سکی- شام کو اس نے دوبارہ بےبے کے پاؤں پکڑ لیے ...

" بےبے .... میری زندگی دا سوال اے"

" باقیاں دا وی سوچ ... پین جوان آ تیری ..."

"پر .... شمیم چھوٹی اے میرے توں ... "

"چھوٹی اے تے کی ؟؟ کل وڈّی نئیں ہونڑیں ؟؟ .... یاد رکھ تیرا ویاہ شمیم دے وٹّے نال ای ہونڑاں "

وٹّہ سٹّہ پنجاب کی وہ قبیح رسم ہے جس میں ایک رشتہ لیکر دوسرا " سیکورٹی ڈیپازٹ" کے طور پر "جمع" کرایا جاتا ہے- لوگ اسے "پکّا جوڑ" سمجھتے ہیں حالانکہ یہ باہمی مفادات کا کچّا پیوند ہوتا ہے ، جس میں ایک ٹائر پنکچر ہونے پر دوسرا خود بخود پٹاکا مار جاتا ہے-

اس رات بلّا رات دیر گئے تک سوچتا رہا- صبح ہوتے ہی اس نے کھیت میں ناشتہ کرتے ہوئے باپ کو جا پکڑا-

" ابّا مینوں پیسے دے ...!!"

" " او کاہدے لئ ... ؟؟ " ابّا نے لسّی کا گلاس خالی کرتے ہوئے پوچھا-

" میں زھر لیاؤنڑیں... "

"کیوں ؟؟ "

جے میرا ویاہ جٹّاں ول نہ ہویا تے میں زھر پی کے مر جانڑاں .... "

" مجنوں دیا پُترا !!! جے زھر خالص ملدی تے کپاہ وچ نہ پاء لیندا .... ویخ کِنّی انت مچائ آ سُنڈی نے ... ؟؟"

بِلّا مایوس ہو کر واپس چل دیا-
بہرحال شام تک بسیار کوشش کے بعد اُسے "ایزوفاسفیٹ" کی ایک کُپّی مل ہی گئ- گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر اس نے ایک چھوٹا سا گھونٹ بھرا ، پھر کُپّی ہاتھ میں لیے کسی شرابی کی طرح جُھومتا گھر میں داخل ہوا-

"ویخ بےبے .... میں زھر پی لئ اوو ... بِلّے نے زھر پی لئ اوو ... "

"وے تیرا ککھ نہ روّے شدائیا ... وے ایس کرماں سڑے نے زھر پی لئ اوو ... بِلّے نے زھر پی لئ اووو "
بےبے نے چیخ و پکار مچا دی-





Click Here To Read More Episodes

Click Here To Read Episode 2

Comments

Popular posts from this blog

Harrr Aikk BAtt Pr Khety Ho TumM Ki Kia Haye TuM Kahu Kii AndAz GhuftoGo KIA Hye Urdu Ghazal

  ہر ایک بات پر کہتے ہو تم کی تم کیا ہے ۔ تم کہو کی تم اندازِ گفتگو کیا ہے کوئی باتو کی وو شوہ ٹنڈ-ہو کیا ہے تم رشک ہے کی وو ہوتا ہے ہم سوہان تم سے وگرنا ہوفِ بدِ آموزِ عدو کیا ہے جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا ۔ ہو جو اب جب آنکھوں سے نہ تپکا تو پھر لہو کیا ہے۔ وو چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز سیوا بدا گلفام مشک بو کیا ہے پیون شراب آگر ہم بھی دیکھ لو دو چار تم شیشہ او قضا اور کوزہ یا سب کیا ہے راہی نہ تختِ گفتار اور آگر ہو بھی کس امید پر کہیے کی آرزو کیا ہے؟ ہوا ہے شاہ کا مصاحب پھر ہے سفر واگرنا شہر میں 'حلب' کی آبرو کیا ہے

KuchH Syy HoVa Bhi SarD Thi Kucchh Tha Tera Hawal Bh Dil Ko KHushi Ky Sath Sath Ho Tar Ha Milal Bhi Urdu Ghaza;l

  کچھ سے ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا تیرا ہوال بھی دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی بات وو آدھی رات کی رات وو پوری چانڈ کی چاند بھی عین بات ہے ہمیں تیرا جمال بھی سب سے نظر بچا کے وو مجھ کو کچھ ایسا دیکھتا ہے۔ ایک دفا سے رکو گا. گارڈیش-ماہ-سال بھی دل سے چمک سکوں گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ لینا شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی ہم کو نہ پا کے جب دل کا آجیب حال تھا۔ اب جو پلٹ کے دیکھئے بات تھی کچھ محل بھی میری طالب تھا ایک شاہس وو جو نہیں ملا تو پھر ہاتھ دعا سے یون گرا بھول گیا سوال بھی گاہ قریب شاہ راگ گاہ بعید وہم واحباب پر روح کے اور جال بھی شام کی نا سماج ہاوا پوچھ رہی ہے ایک پتا

Sar Mainn Sodaa Bhi Nahin DiL Mainn Tamnaa Bhi Nahin Lakin Tak E Muhabat Ka Bhrosa Bhi Nahin Haii Urdu Ghazal

  سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں لیکِن ترکِ محبت کا بھروسہ بھی نہیں ہے۔ لیکن ہمیں جلوہ گاہ ناز سے اٹھا بھی نہیں مہربانی کو محبت نہیں کہتے ہیں دوست آہ اب مجھ سے تیری رنگیش-بیجا بھی نہیں ہے۔ اور ہم بھول گئے ہیں تمھیں ایسی بھی نہیں آج حفلت بھی ان انکھوں میں ہے پہلے سے سیوا آج ہی ہشتیرِ بیمار شکیبہ بھی نہیں بات یہ ہے کہ سکھوں دل وحشی کا مقام کنجِ زنداں بھی نہیں وُس۔اتِ سحر بھی نہیں ہیں سید ہمین گل ہیں ہمین بلبل ہیں۔ تم نے کچھ نہیں سنا بھی نہیں دیکھا بھی نہیں۔ آہ یہ مجمع احباب یہ بزمِ ہموش آج محفل میں 'فراق' سُہان آرا بھی نہیں تم بھی سچ ہے کی محبت پہ نہیں میں مجبور تم بھی سچ ہے کہ تیرا حسین کچھ ایسا بھی نہیں فطرتِ حسن سے عالم ہے تجھے ہمدم چرا ہی کیا ہے با جوز صبر تو ہوتا بھی نہیں مجھ سے ہم اپنے بورے سے نہیں کہتے کہ 'فراق ' ہے تیرا دوست مگر آدمی ہے اچھا بھی نہیں احزاب کیا ٹائر وڈے پہ احتساب کیا ۔ تمام رات قیام کا انتظار کیا ۔ کسی تارہ جو نہ ہم پر نہ احتساب کیا ۔ میری وفا نہ مجھ سے ہوب شرمسار کیا ہنسا ہنسا کے شب وصل اش