گداگر/ فقیر
آج میں بہت خوش تھا۔
موٹر وے سے گاڑی اتار کے نہر کے کنارے سپیڈ سے گاڑی اڑاتے ھوئے
جا رھا تھا۔ لاؤڈ میوزک
سنتے ھوئے بڑی مستی کے موڈ میں کیمپس پل پہ سرخ بتی کو رنگ میں بھنگ ڈالتے ھوئے
بڑی ناگواری سے دیکھا۔ اور بریک پہ پاؤں کا وزن بڑھاتے ھوئے چوک کے قریب گاڑی روک
کر کھڑا ھو گیا ۔ اور سگنل کے گرین ھونے کا انتظار کرنے لگا۔ اور سوچوں میں گم ھو
گیا کہ آج کیا کیا شاپنگ کرنی ھے۔ساتھ ساتھ جیب میں پڑے ھوئے پانچ ھزار کے نوٹوں
کی گڈی کا نشہ بھی محسوس کر رھا تھا۔میوزک کی آواز کو سگنلُ پہ کھڑے ھونے کی وجہ
سےآھستہ کر دیا تھا۔ مگر اپنی شہادتی انگلی سے اسٹیرنگ وھیل پہ مسلسل ڈرم بجا رھا
تھا۔ ابھی گانے کا مزا لے ھی رھا تھا کہ ایک فقیر نے شیشہ کھٹکھٹایا اور کہنے لگا
کہ اللہ کے نام پہ کچھ دے دو ۔ میں نے اسی سرور و کیف کی مستی میں اپنی شہادتی
انگلی کو ہی بڑی شان بے نیازی سے اس کی طرف ہوا میں لہرایا اور دبی سی آواز میں
بابا جی معاف کرو کہہ کے دوبارہ گانے کی لے کی طرف متوجہ ھو گیا۔ اسی اثناء میں وہ
فقیر دوبارہ مجھ سے مخاطب ھوا۔ میرے بچوں نے رات سے کچھ نہی کھایا ۔ یہ
تقریبا" وھی الفاظ تھے ۔ جن سے ھم کو روز واسطہ پڑتا تھا۔ اور جواب بھی وہی
رٹارٹایا تھا ۔ کہ بابا جی ٹوٹے ھوئے نہی ھیں معاف کرو۔کوئی بات نئی نہ تھی۔ وہ
فقیر پھر عام فقیروں کی طرح ڈھیٹ سا بن کے اپنی ضد پر اڑنے لگا۔ اور میں نے بھی
وھی کام دھرایا جو ھم ان جیسے ڈھیٹ فقیروں کے ساتھ کرتے ھیں۔ یعنی مزید آواز اونچی
کر کے اس کو کہا بابا جی ایک بار نا کی سمجھ نہی آئی۔ میری یہ دھاڑ ھمیشہ کی طرح
کام آ گئی اور وہ فقیر اپنے سر کو جھکا کر پیچھے جا کر کھڑا ھو گیا۔ سگنل گرین ھوا
میں نے گاڑی کو گئیر میں ڈالا اور اس کوبرکت مارکیٹ کی طرف موڑ کے پھر کھڑاھو گیا۔
لاھور کے رھائشی جانتے ھیں کہ وھاں ایک اور اشارہ ھے۔ ابھی مجھے وھاں کھڑے ایک
لمحہ ھی ھوا تھا کہ پیچھے سے ایک گاڑی کی بریکوں کی بڑی بھیانک سی آواز آئی ۔ میرا
کلیجہ اچھل کے میرے حلق میں آگیا ۔ پیچھے مڑ کے دیکھا کہ پچھلے چوک میں جہاں اس
گاڑی نے بریک لگائے تھے۔ وھاں لوگ جمع ھونا شروع ھو گئے تھے۔ میں بھی گاڑی سائیڈ
پر لگا کے اس ھجوم کی طرف لپکا۔ بھیڑ کافی اکھٹی ھو گئی تھی۔ قریب پہنچا تو لوگ بڑ
بڑا رھے تھے کہ قصور گاڑی والے کا ھے کوئی کہہ رھا تھا نہی یہ فقیر جان بوجھ کر اس
کی گاڑی کے آگے آیا تھا ۔ گاڑی سے ٹکرا کے وہ فقیر ھوا میں اچھلا تھا اور واپسی پر
اس کا سر زمین سے ٹکرایا یا اسی گاڑی کو دوبارہ اس کا سر لگا ۔ جس سے اس کا خون
بھی نکلنے لگا تھا اور وہ بیہوش بھی ھو گیا تھا۔ کوئی اپنی گاڑی سے منرل واٹر کی
بوتل نکال لایا ۔ کسی راھگیر نے اپنے سر پہ رکھنے والے کپڑے سے اسکا چہرہ صاف کرنا
شروع کر دیا کسی نے ۱۱۲۲ کو فون کر دیا ۔ یہ سب جلدی جلدی ھو رھا تھا اب ھجوم بہت زیادہ ھو
چکا تھا ۔ ھر بندہ اپنی رائے دے رھا تھا کہ یہ کرو وہ کرو۔ اسی اثناء میں میری بھی
سوئی ھوئی انسانیت تھوڑی سی جاگی میں نے لوگوں کو متوجہ کیا کہ ساتھ ھی شیخ زید
ھسپتال ھے اسے میری گاڑی میں ڈالو اس کو وھاں لے جاتے ھیں ادھر ٹریفک وارڈن نے
ایکسیڈنٹ والی گاڑی کے مالک جس کو بھی ھلکی پھلکی چوٹ آئی تھی۔کو لوگوں کے غیض وغضب
سے بچا کے سائیڈپہ بٹھا دیا تھا۔ میں نے دوسرے لوگوں سے مل کے اس فقیر کو اپنی
گاڑی میں ڈال کے شیخ زید کی ایمرجنسی کی طرف گاڑی بھگا دی ۔ وھاں پہنچ کے اس کو
اسٹریچر پہ ڈال کے ڈاکٹروں کے حوالے کیا۔ انھوں نے بھی فورا" اپنا کام شروع کر دیا ۔ ایک پرچی میرے ھاتھ میں تھما دی ۔ میں بھاگ
کے وہ تمام دوائیاں اور ڈرپ وغیرہ لے کے آ گیا ۔ تھوڑی سی تگ و دو کے بعد اس فقیر
کو ھوش آ گیا ھوش سنبھالتے ھی اپنی سیریس چوٹوں کو نظرانداز کرتا ھوا اپنے بیڈ سے
نیچے اترتے ھوئے وہ دھاڑا ظالمو میرے بچے کل کے بھوکے ھیں ھم سب نے اسے پکڑ کے
واپس بیڈ پہ لٹا دیا۔ اس دفعہ اس کی دھاڑ کا وزن مجھے اپنے سینے میں محسوس ھوا۔
اسکی آواز میں روح اور بدن دونوں کا درد علیحدہ علیحدہ محسوس ھو رھا تھا۔ اس نے
میری طرف اس نگاہ سے دیکھا کہ میں زمین میں دھنس کے رہ گیا۔ خود کو کسی کی نظروں
میں آج تک اتنا گرا ھوا نہ پایا تھا۔ اسکی نگاھوں کے تیر میری روح میں اتر رھے
تھے۔ اسکا چہرہ آنسوؤں سے تر ھوچکا تھا آواز نحیف ھو رھی تھی مگر اس کی آواز کا
کرب بڑھتا جا رھا تھا ۔الفاظ وھی تھے۔ میرے بچے ھائے میرے بچے بھوک سے مر ۔۔۔۔ رھے
یہاں الفاظ اور اس کی روح نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ خون کے زیادہ بہہ جانے کی وجہ
سے ڈاکڑ اس کو سٹیبل نہ کر پائے۔ ضروی کاروائی کے بعد میں اپنے من من کے قدم
اٹھاتا ھواھسپتال سے باھر نکل کر اپنی گاڑی میں آکے بیٹھ گیا۔ نہ وہ میوزک مستی
باقی تھی نہ شاپنگ کا جنون دل کسی طور قابو میں ھی نہ آ رھا تھا ۔ سوچا کسی دوست
کے پاس چل کے آرام کیا جائے ۔ گاڑی گیٹ سے نکال کر ایک پیارے سےدوست ساجد گھمن کے
دفتر کی طرف روانہ ھوا ۔ تمام خوشی غموں سے بےنیاز نہر کاپانی میرے داھنے ھاتھ اسی
روانی سے بہتا چلا جا رھا تھا۔ گاڑیوں کی ایک لمبی قطار میرے بائیں ھاتھ پہ اس طرح
چل رھی تھی جیسے کچھ بھی نہ ھوا ھو۔ آگے جیل روڈ کے سرخ ھوتے ھوۓاشارے پہ بڑی اداسی سے گاڑی
کے بریک لگائے ۔ گاڑی کے رکتے ھی کسی نے گاڑی کا شیشہ تپھتپھایا بیٹا میری مدد کرو
میرے بچے کل کے بھوکے ھیں آواز کسی بوڑھی عورت کی تھی۔ میں نے اپنا ھاتھ جیب میں
ڈال کر ایک پانچ ھزار کا نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس کے چہرے سے حیرانگی
کے تاثرات ابھرے اسے اپُنے بچوں کی بھوک بھول چکی تھی اس کے چہرے پہ اپنے جھوٹ کی کامیابی
کی بےیقین سی جھلک صاف دکھائی دے رھی تھی ۔ اور اس نے اپنے جھوٹ کی خوشی چھپاتے
ھوئےانتہائی روائتی انداز میں کہا اللہ تمہارا بھلا کرے۔ اور تمہاری ساری مرادیں
پوری کرے اورتقریبا" بھاگتی ھوئی پیچھے کی طرف چلی گئی۔ اور میں بھی جاں بلب
سا ھو کر کیا کھویا کیا پایا سوچتا ھوا آگے بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر از ظفر اقبال مغل
Comments
Post a Comment