پرایا دھن
ایک لڑکی تھی نخریلی سی
لاڈوں میں تھی پلی بڑھی
پیدا ہوتے ہی سینے سے
اس کو
باپ نے لگایا تھا
چھوٹی چھوٹی باتوں پر
ہوتی تھی ناراض کبھی
گلاب لا کر کبھی چاکلیٹ
سے
بابا نے اسے منایا تھا
کھیلتے کودتے جو گرتی
تو
جھک کر کندھوں پر
اسے بٹھایا تھا
چوڑیاں بھی پہنائی تھیں
گھگھرا بھی دلایا تھا
پلیٹ بھری تھی بچوں کی
خود ہمیشہ کم کھایا تھا
اپنی نیند بیچی تھی
بڑے سکول میں پڑھایا
تھا
ایک آنٹی ہیں جو کہتی
ہیں
لڑکی ہو اک سمارٹ سی
گوری چٹی ہو گال گلابی
ہوں
قد ہو لمبا سا اور ناک
بھی تیکھی ہو
آنکھ ہو ہرنی سی اور
ایم ۔ اے پاس ہو
لڑکی ایسی ہو
جو فرض شناس ہو
کھاتا پیتا ہو گھرانا
اس کا
صوفہ بیڈ تو ہوتا ہے
لیکن
جہیز میں اک گاڑی ہو
میرے لئیے ہوں بھاری
جھمکے
ساتھ میں ایک ڈیسنٹ
ساڑھی ہو
جگر کا ٹکڑا ہے جوان اب
ذہن میں ہے گمان اب
دل ہے میرا پریشان اب
اچھا میں جاتا ہوں
پینشن بھی نکلواتا ہوں
میری رونق میری بیٹی
تمہیں اب جانا ہو گا
سونا کر کے میرا آنگن
نیا گھر بسانا ہو گا
دل میں گریں گے آنسو
بہت
میں باپ ہوں لیکن
مجھے مسکرانا ہو گا
بیٹی تمہیں جانا ہو گا
گھر میں اب بہو ہے آئی
کیسے مانوں اپنا اسے
آخر ہے یہ لڑکی پرائی
سوتی ہے کھاتی ہے بہت
چھ دن رہتی ہے ادھر
میکے جاتی ہے بہت
مانا کہ پڑھایا ہے
لکھایا ہے
کیا کوئی گر بھی سکھایا
ہے؟
ناک ہے تیکھی لیکن
کچھ ذیادہ ہی تیکھی ہے
مسکراہٹ بھی دیکھو اس
کی
کتنی پھیکی ہے
آئے روز ہوتی ہے بیمار
یہ
شوہر کو کرتی ہے خوار
یہ
بیٹھنا بھی آتا نہیں
چال بھی بے ڈھنگی ہے
کام چور ہے بہانہ ہے
کہاں سے لگتی ہے بیمار
یہ؟
بھلی چنگی ہے ڈرامہ ہے!!!
منزہ ذوالفقار
Comments
Post a Comment