سیلاب 2010 اور ہم
آج سے ٹھیک بارہ سال
پہلے انہی دنوں میری فیملی سیلاب کے مصیبت زدگان میں شامل تھی۔ تب میں فورتھ گریڈ
کی طالبہ تھی۔ بارشوں کی کثرت کے باعث دریائے سندھ میں پانی کا لیول پہلے سے کہیں
زیادہ بڑھ گیا تھا، ہمارا مسئلہ لوکیشن تھی جسکی ایک طرف دریائے سندھ تو دوسری طرف
ٹی پی لنک ، گھر کے سامنے بھی نہر اور ساتھ میں ضلعے کی دریا نما نہر ہے۔ ٹی وی پہ
سیلاب کی خبریں اور اماں کے تاثرات دیکھ کر دل دہل جاتا تھا۔ پھر اچانک ایک صبح دو
بجے ( تین اگست 2010 ) اماں نے ہم سات بہن بھائیوں کو جگا کر صورتحال کی بریفنگ
دی۔
"دریا کا بند ( کنارہ)
ٹوٹ گیا ہے ، ہم ابھی گھر چھوڑ دیں گے ، کسی نے ڈرنا یا رونا نہیں ہے ، ہم لوگ تھل
جا رہے ہیں۔ تم لوگوں کے ابا ساتھ نہیں ہیں ، اس لیے ہم سب نے ایک دوسرے کا خیال
رکھنا ہے"
بریفنگ ابا پہ آ کر ختم
ہوئی اور یہی امی کا ضبط بھی۔ روتے ہوئے آدھا ضروری سامان ایک ٹرنک میں رکھا، سمجھ
نہیں آ رہی تھی کہ؛
مویشی کیسے چھوڑیں ،
اماں کی ہی نہیں بلکہ ہم سب کی ان سے فیملی ممبرز جیسی اٹیچمنٹ تھی ۔ ناچو ،
شہزادی ، انجلی ، چندا اور پھر اتنی ساری بکریاں۔
ٹونی جسکو ہاتھوں سے
کھانا کھلاتے رہے، جو ہماری حفاظت کےلیے رات بھر جاگتا تھا
مٹھو ( جسے تب پالنا
شروع کیا جب وہ آنکھیں تک نہیں کھولتا تھا، اب تو ہم سب کے نام لے کر چوری بھی
مانگنے لگا تھا)
مرغیاں جن کو بلی سے
بچا بچا کر بڑا کیا
خیر بہت کچھ تھا ، لیکن
ایک گھنٹے میں صرف ہم ہی کسی محفوظ جگہ پہ پہنچ سکتے تھے۔ اس لیے تب سب کو چھوڑ
دیا لیکن بعد میں صرف مویشی اور بکریوں کو بچانے میں ہم کامیاب ہوئے۔
صبح سوا چھ بجے ہم گھر
کے آٹھ افراد انجان ٹیلوں کے بیچ ایک ٹرنک اور اپنی آدھی زندگیوں سمیت بیٹھے تھے۔
ڈیڑھ دو گھنٹے تو دور پرے کے ان رشتہ داروں کو ڈھونڈنے میں لگے جو تھل کے انہی
ٹیلوں کے بیچوں بیچ کہیں رہتے تھے اور خشک قسمتی سے ہم نے انہی کی زمین میں طور پر
قیام کرنا تھا ۔ اس رات تھل میں شاید بارش ہوئی تھی جبھی جگہ جگہ سفید کھمبیاں
اٹینشن لے رہی تھیں جو کچھ گھنٹوں کےلیے ایڈیبل ہوتی ہیں لیکن بعد میں اندر سے
بلیک ہو جاتی ہیں۔
منزل تک پہنچنے سے پہلے
میری جھولی میں بہت ساری کھمبیاں جمع ہو چکی تھیں جنکو بعد میں اماں نے بھوننے کی
بجائے سالن میں کنورٹ کر دیا۔ یہ ایک الگ دکھ ہے
خیر۔ ہمیں پہنچے ابھی
آٹھ دس گھنٹے ہی ہوئے تھے کہ ددھیال والوں کی تین چار ٹرالیاں بھی وہیں آن پہنچیں
جو والدہ کےلیے بہت پریشان کن ثابت کیوں ہوئیں یہ معلوم نہیں۔
گھر چھوڑنے کے ایک دو
روز بعد بکریاں اور مویشی ریکور ہو گئے ۔ ہمارے پاس نقد رقم اتنی زیادہ تھی کہ
تیسرے روز ہی قالین ، ٹرانسپیرنٹ پلاسٹک شیٹ ، کھیس اور کھانے کے سامان کےلیے اماں
کو اپنے میکے والوں کی طرف سے ملی پسندیدہ ترین بالیاں تھل کے پاس والے شہر میں
بیچنی پڑیں۔
تھل میں دن کے وقت شدید
گرمی اور رات کو بارش ہوتی تھی ، سارا دن دھوپ سے بچنے کو سایہ نہ ملتا لیکن رات
کو پلاسٹک شیٹ سے تھوڑی بچت ہو جاتی تھی ۔ اس میں بھی صبح ہوتے ہی بڑا بھائی
شرارتا سارا پانی سوتے ہوؤں کی طرف بہا دیتا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ اماں
سونے سے پہلے ہم ساتوں کے نام لے کر تسلی کرتی تھیں کہ سارے پورے ہیں۔ بائیس دنوں
کے قیام میں بڑے عجیب تجربات ہوئے جیسے ہمسائیوں کی کپاس چننا اور کھجوریں چوری
کرنا ، کھمبیاں توڑنا ، چٹنی کےلیے سیٹو ڈھونڈنا۔ پہلی بار سپارہ وہیں کی مسجد میں
پڑھنا شروع کیا۔ دو چار کنویں بھی دیکھے۔
صبح چار بجے امی سب کو
نہلا تو دیتیں، ایک گھنٹے سے پہلے ریت کا طوفان آنکھ ، منہ ، اور کپڑوں میں سے گزر
جایا کرتا۔
ایک شام گاؤں والوں سے سے
پتہ چلا کہ کلاسرے والی پل ٹوٹ گئ ہے ، اماں بہت روئیں۔ پھر اگلی ہی شام ایک اور
خبر یہ کہ گھر میں چوری کی واردات ہو چکی ہے۔ یہ تو جیسے سانحہ تھا۔
جیسے تیسے دن گزار کر
تئیسویں روز اسی ٹرنک اور مویشیوں سمیت ہم گھر واپس آ گئے ، پانی گھر کے صحن اور
دیواروں کو اچھے سے چھو کر گزرا تھا۔ پکے گھروں میں جگہ جگہ دراڑیں ہو گئیں۔
فارم زمین بوس ہو گیا۔
زمینوں سے چاولوں کی فصل پانی نے غائب کر دی تھی ، طوطا بلی کھا گئی ،ٹونی بہہ گیا
، مرغیاں بھی مر گئی تھیں۔
اس نقصان کے بعد مریل
سی خوشی یہ تھی کہ ہم سروائیو کر گئے۔ سیلاب کے کئی مہینوں بعد تک راستے اور سکول
بند رہے۔ ذہن کی غیر محفوظ حالت تو الگ ہی کہانی ہے۔ کئی مہینوں تک ہماری نہر سے
لاشیں گزرتی رہیں۔ پھر زمینوں کا پانی خشک ہونے لگا تو روزانہ کہیں نہ کہیں مردہ
جانداروں( انسانوں، جانوروں ) کے جسم ملتے ،کچھ تو مصیبت زدگان تھے اور باقی سیلاب
نے آبائی قبرستان کو بھی زمینوں میں الٹ دیا تھا۔ آٹھ نو ماہ بعد نہروں کی کھدائی
کی گئی تب بھی جگہ جگہ انسانی باقیات ملے۔
سیلاب کے پانی سے نکلنے
والے سانپ اور زہریلے جانداروں سے بھی دن میں چھ سات بار گھر کے کونے کھدروں میں
سامنا ہو جاتا۔ سکن الرجیز اور دوسری بیماریوں نے بھی اک عرصے تک پیچھا نہ چھوڑا۔
اس سب میں مجھے ایک بھی
حکومتی کاروائی یاد نہیں ۔ بعد میں سنا تھا کہ فوج لاشیں نکالنے آئی ہے۔
اب روزانہ بلوچستان اور
سرائیکی وسیب سے آنے والی تصویریں دیکھوں تو دل پھٹنے لگتا ہے۔ نہر اور زمینوں میں
دبی لاشیں نظر آتی ہیں ، اجڑے گھر میں سانپ دکھتے ہیں۔
لفظ "سیلاب"
کے سارے کتابی مطلب ان دھاڑوں کو کبھی بھی بیان نہیں کر سکتے جو مٹی میں لت پت باپ
اور ایک اجڑی ہوئی ماں کے جسم سے نکلتی دیکھی ہیں۔
ابھی بارہ سال پرانا
خوف دوبارہ یاداشت میں چبھ رہا ہے۔ صبح کے چار بج رہے ہیں اور فیسبک ایکٹیوسٹس
بستی احمدانی کو خطرے سے خبردار کر رہے ہیں کیونکہ خبرناموں میں پولیٹکل نیوز کا
پریشر بہت زیادہ ہے۔
کل رات۔۔۔۔۔۔۔۔
سارہ
Comments
Post a Comment