Skip to main content

صفر سے فلسفہ حیات تک: انڈیا کی قدیم نالندہ یونیورسٹی جس نے دنیا بدل کر رکھ دی

 

صفر سے فلسفہ حیات تک: انڈیا کی قدیم نالندہ یونیورسٹی جس نے دنیا بدل کر رکھ دی



یہ سردیوں کی ایک صبح ہے۔ ہر طرف گہری دھند چھائی ہوئی ہے۔ ہماری گاڑی سڑک پر بہار کی مشہور سواری تانگوں کے پیچھے سے گزرتی ہے۔ تیز بھاگتے گھوڑے اور خاص پگڑی میں کوچوان سفید دھند میں ’سائے‘ کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔

انڈیا کے ’بودھ گیا‘ قصبے، جس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں گوتم بدھ نے معرفت حاصل کی تھی، میں رات گزارنے کے بعد میں اس صبح نالندہ کے لیے روانہ ہو گیا۔ یہ وہ یونیورسٹی ہے جس کی سرخ رنگ کی اینٹوں کے کھنڈرات ابھی تک قدیم دنیا کے سب سے بڑے علمی مراکز میں سے ایک ہیں۔

یہ یونیورسٹی پانچویں صدی عیسوی 427 میں قائم کی گئی تھی اور اس کا شمار دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔

یورپ کی آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی سے بھی پانچ سو سال قبل انڈیا کی شمال مشرقی ریاست بہار کی نالندہ یونیورسٹی تعلیم کا ایک اہم اور عالمی مرکز ہوا کرتی تھی۔

قرون وسطیٰ کے ’آئیوی لیگ‘ کے ایک ادارے کی مانند اپنے عروج کے زمانے میں اس یونیورسٹی میں نہ صرف ہندوستان کے طول و عرض سے بلکہ تبت، چین، ایران، حتیٰ کہ یونان تک سے دس ہزار طلبہ حصولِ تعلیم کے لیے آتے تھے اور انھیں 90 لاکھ کتابیں پڑھنے کے لیے میسر تھیں۔

یہ طلبہ یہاں میڈیسن، منطق، ریاضی اور سب سے بڑھ کر اس ئوقت دنیا کے مانے ہوئے سکالرز سے بدھ ازم کے اصول سیکھنے کے لیے آتے تھے۔

جنوری 2013 میں جے پور ادبی میلے میں تبتیوں کے مذہبی گورو دلائی لامہ نے کہا تھا کہ ’بدھ مت کے تمام علم کا ذریعہ نالندہ یونیورسٹی تھی۔‘

سات صدیوں سے زیادہ کے عرصے میں نالندہ نے جس طرح سے علم اور عمل کے موتی بکھیرے دنیا میں اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔

یہ خانقاہی یونیورسٹی، یونیورسٹی آف آکسفورڈ اور یورپ کی سب سے قدیم یونیورسٹی بولوگنا سے کئی صدیاں پہلے کی ہے۔

فلسفہ اور مذہب کے بارے میں نالندہ کے روشن خیال نقطہ نظر نے یونیورسٹی کے ختم ہونے کے کافی عرصے بعد بھی ایشیا کی ثقافت کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ گپتا سلطنت کے بادشاہ جنھوں نے بدھ خانقاہی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی تھی وہ ایک پکے ہندو تھے لیکن بدھ مت اور اس وقت کے بڑھتے ہوئے بدھ مت کے فکری جذبے اور فلسفیانہ تحریروں کی بدولت ان میں نہ صرف بدھ ازم کے لیے ہمدردی پیدا ہوئی بلکہ وہ بدھ ازم کی طرف مائل بھی ہو گئے۔

آزاد خیال ثقافتی اور مذہبی روایات جو ان کے دور میں پروان چڑھیں وہ بھی نالندہ کے کثیر الضابطہ تعلیمی نصاب کی مرہون منت ہیں، جنھوں نے مختلف شعبوں میں دانشورانہ بدھ مت کے تعلق کو اعلیٰ علم سے جوڑ دیا۔

آیورویدا کا قدیم انڈین طبی نظام، جس کی جڑیں فطرت پر مبنی شفایابی کے طریقوں پر مبنی ہیں، نالندہ میں بڑے پیمانے پر پڑھایا جاتا تھا اور پھر علم کی یہ روشنی یہاں سے فارغ البال طلبہ کے ذریعے انڈیا کے دوسرے حصوں تک پہنچ جاتی تھی۔


دیگر بدھ ازم کے ادارے اس یونیورسٹی سے متاثر تھے، جس میں کھلا صحن تھا، عبادت کے لیے ہال اور لیکچر رومز موجود تھے۔

یہاں جس طرح کی طرز تعمیر کی گئی اس نے تھائی لینڈ میں کلیسائی آرٹ کو متاثر کیا۔ یہاں سے دھات کا آرٹ تبت اور جزیرہ نما ملایا تک پہنچا۔

شاید نالندہ کی سب سے گہری اور دیرپا میراث اس کی ریاضی اور علم فلکیات میں نمایاں کامیابیاں ہیں۔

آریہ بھٹ، جنھیں انڈین ریاضی کا باپ سمجھا جاتا ہے، کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ چھٹی صدی عیسوی میں یونیورسٹی کے سربراہ تھے۔


کولکتہ میں مقیم ریاضی کی پروفیسر انورادھا مترا کے مطابق ’ہم سمجھتے ہیں کہ آریہ بھٹ نے سب سے پہلے صفر کو ایک ہندسے کے طور پر متعارف کروایا۔ یہ ایک انقلابی تصورتھا، جس نے ریاضی کے حساب کو آسان بنایا اور الجبرا اور کیلکولس جیسی پیچیدہ راہوں کو تیار کرنے میں مدد فراہم کی۔‘

ان کے مطابق ’صفر کے تصور کے بغیر ہمارے لیے کمپیوٹر کا حصول ممکن نہیں تھا۔‘

ان کے مطابق ’انھوں نے مربع اور کیوبک جڑیں نکالنے اور کروی جیومیٹری میں مثلثی افعال کے استعمال میں بھی اہم کام کیا۔ وہ چمکتے چاند کو منعکس شدہ سورج کی روشنی سے منسوب کرنے والے پہلے سائنسدان تھے۔‘

اس تصور نے جنوبی ہند اور جزیرہ نما عرب میں ریاضی اور فلکیات کی ترقی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

بالندہ یونیورسٹی نے اپنے چند بہترین سکالرز اور پروفیسروں کو چین، کوریا، جاپان، انڈونیشیا اور سری لنکا جیسے مقامات پر بدھ مت کی تعلیمات اور فلسفے کی تبلیغ کے لیے باقاعدگی سے بھیجا۔

اس قدیم کلچرل ایکسچینج پروگرام نے پورے ایشیا میں بدھ مت کو پھیلانے اور نئی جہت دینے میں مدد فراہم کی۔

نالندہ کے آثار قدیمہ اب یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہیں۔ نالندہ یونیورسٹی کو دو بار تباہ کیا جا چکا ہے۔ سنہ 1193 میں ترک افغان ملٹری جنرل بختیار خلجی نے حملہ کر کے یونیورسٹی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی، جس نے شمالی اور مشرقی ہندوستان پر اپنی فتح کے دوران بدھ مت کے علم کے مرکز کے نقوش مٹانے کی کوشش کی۔

اس یونیورسٹی کا کیمپس اتنا وسیع تھا کہ حملہ آوروں کی طرف سے لگائی گئی آگ تین ماہ تک جلتی رہی۔ آج اس یونیورسٹی کی 23 ہیکٹر کی کھدائی کی گئی جگہ ممکنہ طور پر اصل کیمپس کا محض ایک حصہ ہے، لیکن اس کی متعدد خانقاہوں اور مندروں میں گھوم کر تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس جگہ پرعلم کی پیاس بجھانے کا احساس کیسا ہوتا ہوگا۔

میں خانقاہوں کے برآمدوں، راہداریوں اور مندروں کے مزاروں کے حجروں میں گھومتا رہا۔ سرخ اینٹوں کی اونچی دیواروں والی راہداری سے گزرنے کے بعد میں ایک خانقاہ کے اندرونی صحن میں پہنچا۔ غار نما مستطیل جگہ پر پتھروں کے بنے ہوئے پلیٹ فارم جگہ جگہ نظر آئے۔

میری گائیڈ کملا سنگھ، جنھوں نے مجھے کھنڈرات کے ارد گرد گھومتے پھرتے دیکھا، نے مجھے بتایا کہ ’یہ ایک لیکچر ہال ہوا کرتا تھا جس میں 300 طلبہ بیٹھ سکتے تھے۔ اور پلیٹ فارم اساتذہ کا پوڈیم تھا۔ میں ان چھوٹے کمروں میں سے ایک میں گیا، جو صحن میں تھا، جہاں دور دراز افغانستان سے آئے طلبہ رہتے تھے۔

ایک دوسرے کے سامنے دو الکووز یعنی الماریاں تھیں جن کا مقصد وہاں تیل کے لیمپ اور ذاتی سامان رکھنا تھا، اور کملا سنگھ نے وضاحت کی کہ سیل کے داخلی دروازے کے قریب چھوٹی، مربع نما خالی جگہ ہر طالب علم کے ذاتی لیٹر باکس کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔

آج کی ’ایلیٹ‘ یونیورسٹیوں کی طرح یہاں بھی داخلہ لینا مشکل تھا۔ خواہشمند طلبہ کو نالندہ کے اعلیٰ پروفیسروں کے سامنے ایک زبانی مگر انتہائی سخت قسم کے انٹرویو کے لیے پیش ہونا ہوتا تھا۔ انٹرویو میں پاس ہونے والے خوش نصیب طلبہ کو ہندوستان کے مختلف کونوں سے پروفیسروں کا ایک منتخب گروپ ٹیوشن پڑھاتا تھا۔ تعلیم و تدریس کا یہ سب نظام اس زمانے کے سب سے زیادہ قابل احترام بدھ مت کے ماسٹرز جیسے کہ دھرما پالا اور سلوبھادرا کے تحت کام کیا۔

لائبریری کے 90 لاکھ ہاتھ سے لکھے ہوئے کھجور کے پتوں کے مخطوطات دنیا میں بدھ مت کی حکمت کا سب سے قیمتی ذخیرہ تھا، اور اس کی تین لائبریریوں میں سے ایک کو تبتی بدھ مت کے سکالر تراناتھا کے مطابق یہ فلگ شگاف نو منزلہ عمارت تھی۔

ان کھجور کے پتوں کی جلدوں اور پینٹ شدہ لکڑی کے ’فولیوز‘ میں سے صرف چند ایک نسخے ہی آگ سے بچ گئے، جو یہاں سے فرار ہونے والے راہب اپنے ساتھ لے گئے۔ وہ اب امریکہ میں لاس اینجلس کے ’کاؤنٹی میوزیم آف آرٹ‘ اور تبت کے ’یارلنگ میوزیم ‘ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

 

ساتویں صدی عیسوی میں مشہور چینی بدھ راہب اور سیاح یی جِنگ نے نالندہ میں تعلیم حاصل کی اور پھر یہاں پڑھایا بھی ہے۔ جب وہ 645 عیسوی میں چین واپس آئے تو وہ نالندہ سے بدھ مت کے 657 صحیفوں کو اپنے سامان میں بھر کر ساتھ لے گئے۔

انھوں نے نالندہ کے بارے میں لکھا تھا: ’اگر یہاں کوئی اختلافِ رائے ہوتا ہے تو کسی کو اپنی بات منوانے کے لیے مجبور نہیں کیا جاتا۔ کسی طالبِ علم کو مارا پیٹا نہیں جاتا۔‘

بعد میں یی جِنگ دنیا کے سب سے زیادہ بااثر بدھ سکالرز میں سے ایک بن گئے اور وہ اپنی زندگی کا حاصل بتانے کے لیے ان جلدوں کے ایک حصے کا چینی زبان میں ترجمہ کرایا، جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ پوری دنیا دماغ کا استعمال ہے۔ اس نظریے کے تحت عقل کے ذریعے علم کے حصول اور تحقیق پر زور دیا گیا۔

ان کے جاپانی شاگرد ’دوشو‘ نے بعد میں اس نظریے کو جاپان میں عام کیا اور یہ چین اورجاپانی دنیا میں مزید پھیل گیا، جہاں سے یہ ایک بڑے مذہب کے طور پر اب تک برقرار ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یی جِنگ کو ’بدھ مت کو مشرق میں لانے والے راہب‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں یونیورسٹی کی خوبصورتی کا ذکر کیا ہے۔

نالندہ کے بارے میں یی جِنگ کی کتاب میں یہاں ایک عظیم سٹوپا کا ذکر ملتا ہے، یہ ایک بہت بڑی یادگار ہے جو مہاتما بدھا کے ایک شاگرد خاص کی یاد میں تعمیر کی گئی تھی۔

میں اس ڈھانچے کے کھنڈرات کے سامنے کھڑا تھا، جس کی شکل ایک ’آکٹونل اہرام‘ کی طرح تھی۔ عمارت کے اوپری حصے تک کھلی اینٹوں کی سیڑھیاں ہیں، جسے عظیم یادگار بھی کہا جاتا ہے۔ 30 میٹر اونچے مندر کے ارد گرد چلنے والی پکے چبوترے پر متعدد چھوٹے مزارات اور سٹوپا ہیں، جو بیرونی دیواروں کے طاقوں میں خوبصورت ’سٹوکو‘ کی تصاویر سے مزین ہے۔

ممبئی کی ایک تاریخ کی استاد انجلی نائر، جن سے میں نے یونیورسٹی میں ملاقات کی تھی، کے مطابق ’دی گریٹ سٹوپا دراصل یونیورسٹی سے پہلے کا ہے اور اسے شہنشاہ اشوکا نے تیسری صدی عیسوی میں تعمیر کرایا تھا۔

آٹھ صدیوں کے دوران اس ڈھانچے کو کئی بار دوبارہ بنایا گیا تھا اور نئے سرے سے ڈیزائن کیا گیا تھا۔

ان کے مطابق ’ان ووٹی سٹوپاؤں میں بدھ راہبوں کی راکھ موجود ہے جو یہاں رہتے تھے اور مر گئے تھے، انھوں نے اپنی پوری زندگی یونیورسٹی کے لیے وقف کر دی تھی۔‘

نالندہ کی تعمیر کے آٹھ صدیوں بعد بھی کچھ سکالرز اس عام پھیلائے جانے والے خیال سے متفق نہیں ہیں کہ بختیار خلجی اور اس کے فوجیوں نے اس وجہ سے اس یونیورسٹی کو تباہ کر دیا تھا کیونکہ یہاں دی جانے والی تعلیم اسلامی تعلیمات کے برعکس تھی۔

اگرچہ بدھ مت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اس حملے کے پیچھے ایک محرک ہو سکتا ہے۔ تاہم انڈیا کے ماہر آثار قدیمہ میں سے ایک ایچ ڈی شنکالیا نے اپنی سنہ 1934 کی کتاب دی یونیورسٹی آف نالندہ میں لکھا ہے کہ ’کیمپس کی قلعے جیسی شکل اور اس کی دولت کی کہانیاں ایسی وجوہات تھیں جس کی وجہ سے حملہ آوروں نے اس طرف کا رخ کیا۔‘

 آن سائٹ میوزیم کے ڈائریکٹر شنکر شرما کے مطابق ’یہ درست ہے کہ حملے کی کوئی حتمی وجہ بتانا مشکل ہے۔‘ آن سائٹ میوزیم میں 350 سے زائد نوادرات رکھے گئے ہیں۔ یہاں سے مجموعی طور پر 13,000 سے زائد نوادرات حاصل کیے گئے ہیں، جنھیں نالندہ کی کھدائی کے دوران بچایا گیا۔

ان نوادرات میں سٹوکو کے مجسمے، بدھ کے کانسی کے مجسمے، اور ہاتھی دانت اور ہڈیوں کے ٹکڑے۔ شامل ہیں۔

جب ہم کھنڈرات میں سے گزر رہے تھے تو شنکر شرما نے بتایا کہ ’اگرچہ نالندہ پر یہ پہلا حملہ نہیں تھا بلکہ اس پر پانچویں صدی میں مہرکولا کے تحت ہنوں نے حملہ کیا، اور آٹھویں صدی میں بنگال کے گاؤدا بادشاہ کے حملے سے دوبارہ اسے شدید نقصان پہنچا تھا۔‘

یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے کہ آیا بنگال کے بادشاہ کا دوسرا حملہ اس وقت ان کے شیو ہندو فرقے اور بدھ مت کے درمیان بڑھتی ہوئی دشمنی کا نتیجہ تھا۔

دونوں موقعوں پر عمارتوں کو بحال کیا گیا اور حکمرانوں کی سامراجی اور سرپرستی کی مدد سے حملوں کے بعد سہولیات کو بڑھایا گیا۔

شنکر شرما کے مطابق ’جب خلجی نے تعلیم کے اس مقدس مندر پر حملہ کیا، تب تک ہندوستان میں بدھ مت مجموعی طور پر زوال پذیر تھا۔‘

ان کے مطابق ’اس کے اندرونی انحطاط کے ساتھ بدھ مت کے ’پالا خاندان‘ کے زوال بھی اس کی وجہ تھی جو کہ آٹھویں صدی عیسوی سے یونیورسٹی کی سرپرستی کر رہا تھا۔‘

ان کے مطابق یوں اس یونیورسٹی پر ’تیسرا حملہ اس کی مکمل تباہی کا سبب بنا۔‘

 اگلی چھ صدیوں میں نالندہ یونیورسٹی آہستہ آہستہ بالکل صفحہ ہستی سے مٹ گئی اور پھر اسے سنہ 1812 میں سکاٹ لینڈ کے سرویئر فرانسس بوکانن-ہیملٹن نے دریافت کیا۔ اس کے بعد سنہ 1861 میں سر الیگزینڈر کننگھم نے اس جگہ کی قدیم نالندہ یونیورسٹی کے طور پر شناخت کی تھی۔

ایک چھوٹے سٹوپا کے قریب کھڑے ہو کر میں نے سرخ رنگ کے لباس میں ملبوس نوجوان راہبوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کو اس جگہ کا دورہ کرتے ہوئے دیکھا۔

وہ ایک ماضی کے مندر کے بڑے چبوترے پر جمع ہوئے۔ نوجوان سنیاسی مراقبہ کے لیے سیدھے بیٹھ گئے، ان کی نظریں عظیم یادگار پر جمی ہوئی تھیں، اور گویا وہ ایک شاندار ماضی کو خاموش خراج عقیدت پیش کر رہے ہوں۔

Comments

Popular posts from this blog

Harrr Aikk BAtt Pr Khety Ho TumM Ki Kia Haye TuM Kahu Kii AndAz GhuftoGo KIA Hye Urdu Ghazal

  ہر ایک بات پر کہتے ہو تم کی تم کیا ہے ۔ تم کہو کی تم اندازِ گفتگو کیا ہے کوئی باتو کی وو شوہ ٹنڈ-ہو کیا ہے تم رشک ہے کی وو ہوتا ہے ہم سوہان تم سے وگرنا ہوفِ بدِ آموزِ عدو کیا ہے جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا ۔ ہو جو اب جب آنکھوں سے نہ تپکا تو پھر لہو کیا ہے۔ وو چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز سیوا بدا گلفام مشک بو کیا ہے پیون شراب آگر ہم بھی دیکھ لو دو چار تم شیشہ او قضا اور کوزہ یا سب کیا ہے راہی نہ تختِ گفتار اور آگر ہو بھی کس امید پر کہیے کی آرزو کیا ہے؟ ہوا ہے شاہ کا مصاحب پھر ہے سفر واگرنا شہر میں 'حلب' کی آبرو کیا ہے

KuchH Syy HoVa Bhi SarD Thi Kucchh Tha Tera Hawal Bh Dil Ko KHushi Ky Sath Sath Ho Tar Ha Milal Bhi Urdu Ghaza;l

  کچھ سے ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا تیرا ہوال بھی دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی بات وو آدھی رات کی رات وو پوری چانڈ کی چاند بھی عین بات ہے ہمیں تیرا جمال بھی سب سے نظر بچا کے وو مجھ کو کچھ ایسا دیکھتا ہے۔ ایک دفا سے رکو گا. گارڈیش-ماہ-سال بھی دل سے چمک سکوں گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ لینا شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی ہم کو نہ پا کے جب دل کا آجیب حال تھا۔ اب جو پلٹ کے دیکھئے بات تھی کچھ محل بھی میری طالب تھا ایک شاہس وو جو نہیں ملا تو پھر ہاتھ دعا سے یون گرا بھول گیا سوال بھی گاہ قریب شاہ راگ گاہ بعید وہم واحباب پر روح کے اور جال بھی شام کی نا سماج ہاوا پوچھ رہی ہے ایک پتا

Sar Mainn Sodaa Bhi Nahin DiL Mainn Tamnaa Bhi Nahin Lakin Tak E Muhabat Ka Bhrosa Bhi Nahin Haii Urdu Ghazal

  سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں لیکِن ترکِ محبت کا بھروسہ بھی نہیں ہے۔ لیکن ہمیں جلوہ گاہ ناز سے اٹھا بھی نہیں مہربانی کو محبت نہیں کہتے ہیں دوست آہ اب مجھ سے تیری رنگیش-بیجا بھی نہیں ہے۔ اور ہم بھول گئے ہیں تمھیں ایسی بھی نہیں آج حفلت بھی ان انکھوں میں ہے پہلے سے سیوا آج ہی ہشتیرِ بیمار شکیبہ بھی نہیں بات یہ ہے کہ سکھوں دل وحشی کا مقام کنجِ زنداں بھی نہیں وُس۔اتِ سحر بھی نہیں ہیں سید ہمین گل ہیں ہمین بلبل ہیں۔ تم نے کچھ نہیں سنا بھی نہیں دیکھا بھی نہیں۔ آہ یہ مجمع احباب یہ بزمِ ہموش آج محفل میں 'فراق' سُہان آرا بھی نہیں تم بھی سچ ہے کی محبت پہ نہیں میں مجبور تم بھی سچ ہے کہ تیرا حسین کچھ ایسا بھی نہیں فطرتِ حسن سے عالم ہے تجھے ہمدم چرا ہی کیا ہے با جوز صبر تو ہوتا بھی نہیں مجھ سے ہم اپنے بورے سے نہیں کہتے کہ 'فراق ' ہے تیرا دوست مگر آدمی ہے اچھا بھی نہیں احزاب کیا ٹائر وڈے پہ احتساب کیا ۔ تمام رات قیام کا انتظار کیا ۔ کسی تارہ جو نہ ہم پر نہ احتساب کیا ۔ میری وفا نہ مجھ سے ہوب شرمسار کیا ہنسا ہنسا کے شب وصل اش