Skip to main content

Victoria aur Abdul Kareem: Malka E Britain aur Un Ke Indian Mulazim Ki Dosti ki Dastaan

 

وکٹوریا اور عبدالکریم: ملکۂ برطانیہ اور ان کے ہندوستانی ملازم کی دوستی کی لازوال داستان

گذشتہ سال جب برطانوی شہزادہ ہیری اور ان کی اہلیہ میگھن مارکل نے اپنی شاہی رہائش گاہ کنسنگٹن پیلس سے ونڈسر میں واقع فروگمور کاٹیج منتقل ہونے کا اعلان کیا تو 19ویں صدی کے اوائل میں تعمیر کیا جانے والا یہ شاہی گھر، جو ایک زمانے میں افسانوی شہرت رکھتا تھا، ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گیا۔


 

اپریل سنہ 2019 میں تین ملین پاؤنڈ کی لاگت سے ہونے والی تزئین و آرائش کے بعد جب شاہی جوڑا اس تاریخی گھر میں منتقل ہوا تو شاید اسے بھی نہیں معلوم تھا کہ سوا صدی قبل اسی گھر میں رہائش پذیر ایک شخص کم وبیش اسی طرح خبروں کی سُرخیوں کی زینت بنا تھا۔

فرق صرف یہ ہے کہ اس شخص کا تعلق شاہی خاندان سے نہیں بلکہ وہ ایک عام ہندوستانی عبدالکریم تھا۔

انھی دنوں ونڈسر سے پانچ ہزار میل دور کراچی کی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے ایک گھر میں چار پاکستانی فروگمور کاٹیج کے اس ہندوستانی مکین سے اپنے خاص تعلق کو یاد کرنے جمع ہوئے۔

پروین بدر خان عبدالکریم کی پڑنواسی، مظہر سعید بیگ اور قمر سعید بیگ پڑنواسے جبکہ 90 سالہ سیّد اقبال حسین خاندانی دوست ہیں۔

کہانی شروع ہوتی ہے!

یہ سنہ 1887 کی بات ہے جب انگلستان کی ملکہ وکٹوریا کی تاج پوشی کے 50 سال مکمل ہونے کی گولڈن جوبلی منائی جا رہی تھی۔ سنہ 1858 میں برطانوی عملداری میں آنے کے بعد سنہ 1876 سے وکٹوریا ہندوستان کی بھی ملکہ بن چکی تھیں۔

کہا جاتا ہے کہ انھیں ہندوستان سے خاص انسیت تھی۔ وہ خود تو کبھی ہندوستان نہ جا سکیں لیکن انھوں نے ہندوستان کا ایک حصہ اپنے پاس منگوا لیا تھا۔ سجیلے ہندوستانی گھڑ سواروں کا دستہ اور خدمت گار تو محل میں پہلے سے ہی موجود تھے، اب گولڈن جوبلی کے موقع پر ملکہ نے فرمائش کی کہ انھیں دو ذاتی خدمت گار ہندوستان سے بھیجے جائیں۔

یہ حکم جب آگرہ کی سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ جان ٹائلر تک پہنچا تو انھوں نے اپنے ماتحت کلرک 24 سالہ عبدالکریم اور ایک ہندوستانی خدمت گار محمد بخش کو اس فرض کی ادائیگی کے لیے منتخب کیا۔ دونوں کو انگریزی طور طریقوں میں تربیت دی گئی اور انگلستان جانے والے بحری جہاز میں سوار کرا دیا گیا۔

عبدالکریم تھے کون؟



حافظ عبدالکریم آگرہ کی سینٹرل جیل میں مُحرّر تھے جبکہ ان کے والد حاجی محمد وزیرالدین شعبۂ طب سے منسلک تھے۔ عبدالکریم کے خاندان کی آگرہ کے آس پاس ہزاروں ایکڑ زمین تھی جس پر زمینداری کی جاتی تھی جبکہ شہر کی سول لائینز میں کئی بنگلے بھی تھے۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اتنے متمول گھرانے سے تعلق رکھنے والے شخص نے ایک خدمت گار کی ملازمت کیوں قبول کی۔؟

نامور براڈ کاسٹر اور کتاب ’ملکہ وکٹوریا اور منشی عبدالکریم‘ کے مصنف رضا علی عابدی اس کا جواب دیتے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رضا علی عابدی کا کہنا تھا کہ شاہی محل میں کام کرنے کا موقع ملنا یقیناً نوجوان عبدالکریم کے لیے ایک بہت بڑی بات ہو گی۔ انگریزی حکومت سے منسلک ہونا اور ملکہ اور شاہی خاندان کا قرب ان کے لیے یہ ملازمت قبول کرنے کی ایک بڑی ترغیب رہی ہو گی۔

ہندوستانی، انگلستان میں

عبدالکریم اور محمد بخش جون سنہ 1887 میں ونڈسر پہنچے اور 23 جون سنہ 1887 کو پہلی بار ملکہ کو ناشتہ پیش کیا۔ ساتھ ہی عبدالکریم نے ملکہ کی ہندوستانی پکوانوں سے تواضع شروع کردی۔ وکٹوریا کو یہ کھانے اتنے پسند آئے کہ اب تقریباً ہر روز ہی شاہی محل میں ہندوستانی سالن بننا شروع ہو گئے۔

عبدالکریم کی پڑنواسی پروین بدر خان اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھی خاندان میں سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی روایات کو یاد کرتی ہیں۔ 'ہمارے بڑے بتاتے تھے کہ ملکہ نے پہلی ہی ملاقات میں عبدالکریم کو پسند کیا اور کیونکہ وہ انھیں پسند کرنے لگی تھیں، اسی لیے انھیں عبدالکریم کے وطن ہندوستان کے بارے میں جاننے کی جستجو ہوئی ہو گی۔ اس طرح ملکہ وکٹوریا اور عبدالکریم کے درمیان تعلق قائم ہوا۔‘

پروین بدر خان کے ساتھ بیٹھے ان کے خاندانی دوست سیّد اقبال حسین اپنے بچپن کی یادوں کو ٹٹولتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان کے والد اور عبدالکریم کے لے پالک بیٹے عبدالرشید دوست تھے۔ وہ خود عبدالرشید کو رشید چچا کہا کرتے تھے۔ ’رشید چچا بتاتے تھے کہ عبدالکریم تمام ہندوستانی عملے میں سب سے زیادہ قابل تھے۔ وہ آگرہ کی اشرافیہ میں سے تھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے یہی وجہ تھی کہ بہت جلد وہ تمام ہندوستانی ملازمین میں ممتاز ہو گئے۔‘

جب ملکہ وکٹوریا نے اردو سیکھی



عبدالکریم کے ونڈسر پہنچنے کے چند دن بعد ہی ملکہ نے اپنے روزنامچے میں لکھا کہ وہ ہندوستانی (اُردو کو اس زمانے میں ہندوستانی کہا جاتا تھا) سیکھ رہی ہیں تاکہ اپنے ہندوستانی ملازموں سے بات چیت کر سکیں۔

عبدالکریم کے پڑنواسے قمر سعید بیگ بتاتے ہیں کہ عبدالکریم ہی ملکہ وکٹوریا کو ہندوستانی پڑھا رہے تھے۔ ’ملکہ نہ صرف ہندوستانی بولنا سیکھ رہی تھیں بلکہ لکھنے کی مشق بھی کرتیں۔‘ انھوں نے اکثر سرکاری اور ذاتی خط و کتابت بھی ہندوستانی میں کرنی شروع کر دی۔

ملکہ کے حکم پر عبدالکریم نے روزمرہ ہندوستانی بول چال کا ایک کتابچہ بھی ترتیب دیا جس میں ضروری ہندوستانی فقرے اور الفاظ درج تھے۔ یہ کتابچہ شہزادے، شہزادیوں اور محل کے تمام سٹاف میں تقسیم کیا گیا تاکہ انھیں ہندوستانی عملے سے رابطے میں کوئی دقت نہ ہو۔

خادم استاد بن گیا

جلد ہی ملکہ وکٹوریا کو احساس ہو گیا کہ کھانے کے جھوٹے برتن اٹھانا عبدالکریم کے شایانِ شان نہیں۔ یہ احساس دلانے میں کچھ حصہ عبدالکریم کا بھی تھا جنھوں نے اصرار کیا کہ وہ آگرہ میں کلرک تھے اور ایک خدمت گار کے طور پر کام کرنا ان کے رتبے سے کمتر ہے۔

لہٰذا ملکہ اور عبدالکریم نے مل کر طے کیا کہ وہ ملکہ کے اتالیق کہلائیں گے۔ مصنف رضا علی عابدی کے مطابق منشی کی اصطلاح بھی عبدالکریم نے ہی تجویز کی ہو گی جبکہ ملکہ کے حکم پر وہ سارے فوٹو تلف کر دیے گئے جن میں عبدالکریم خدمت گاروں کی وردی پہنے دست بستہ کھڑے ہیں۔

عبدالکریم منشی بنے تو ملکہ کو سامنے بٹھا کر میر، غالب اور مومن کے اشعار سنانے لگے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ منشی ہندوستانی پڑھاتے تو ملکہ کہتیں کہ وہ بہت سخت استاد ہیں۔

منشی عبدالکریم کے پڑنواسے مظہر سعید بیگ بتاتے ہیں کہ منشی کی اہلیہ رشیدن بیگم کہا کرتی تھیں کہ ملکہ وکٹوریا عبدالکریم کی بالکل ایک استاد کی طرح عزت کیا کرتی تھیں اور ان کا معمول تھا کہ وہ روز صبح انھیں سلام کرنے آتی تھیں۔

انڈین سیکریٹری کے عہدے پر ترقی

ملکہ کے استاد مقرر ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد منشی عبدالکریم کو ملکہ کا ’انڈین سیکریٹری‘ بنا دیا گیا۔ ان کے لیے دفتر بنایا گیا اور ماتحت مقرر کیے گئے۔ اب منشی کو ملکہ کے لیے بند صندوقوں میں آنے والی ڈاک سنبھالنے کا کام سونپا گیا۔

کچھ ہی عرصے میں منشی کا اثرورسوخ اتنا بڑھ گیا کہ ملکہ ہندوستان سے آنے والی عرضداشتیں ان کے حوالے کر دیتیں اور انھیں منظور یا نہ منظور کرنے کا فرض بھی وہی انجام دیتے۔

سید اقبال حسین نے تصدیق کی کہ ملکہ کو منشی عبدالکریم پر اس قدر اعتبار تھا کہ جب کبھی انگریز حکام ہندوستان کے بارے میں کوئی معلومات دیتے یا ہندوستان سے کوئی خبر بھیجی جاتی تو ملکہ ان سب کی تصدیق کے لیے منشی کی رائے پر اعتماد کرتیں۔

جب یہ خبر عام ہو گئی تو وکٹوریا کے انگریز سٹاف اور ہندوستانی حکام کا ماتھا ٹھنکا۔ وائسرائےِ ہند نے صاف لکھ بھیجا کہ آئندہ وہ خفیہ دستاویزات ملکہ کے ملاحظے کے لیے نہیں بھیج سکیں گے کیونکہ وہ اپنی ڈاک منشی کو دکھاتی ہیں۔ یہ دھمکی کارگر ہوئی اور ملکہ نے سرکاری ڈاک منشی عبدالکریم کو دکھانی بند کر دی۔

’میرے پیارے ہندوستانی بچے‘

ملکہ وکٹوریا منشی عبدالکریم کی ذہانت، نفاست اور خوش ذوقی کی قائل تھیں۔ وہ منشی کو ’جنٹلمین‘ کہا کرتیں تھیں۔ دن میں کئی کئی بار چٹھی لکھتیں اور انھیں 'میرے پیارے ہندوستانی بچے' کہہ کر مخاطب کرتیں۔ اکثر خط ’تمھاری وفا شعار سچی دوست‘ پر ختم کرتیں۔

مُنشی عبدالکریم کی پڑنواسی پروین بدر خان کہتی ہیں کہ ’جب مُنشی عبدالکریم ملکہ کے پاس ملازمت کے لیے آئے تو ان کی عمر صرف 24 برس تھی جبکہ ملکہ 68 سال کی ہو چلی تھیں۔ دونوں کی عمروں میں بہت فرق تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وکٹوریا عبدالکریم کو اولاد کی طرح چاہتی تھیں اور ان دونوں کے درمیان پیار بالکل ماں بیٹے جیسا تھا۔‘

ایک بار ایسا بھی ہوا کہ منشی بیمار پڑے تو ملکہ دن میں کئی کئی بار ان کے کمرے میں جا کر تیمارداری کرتیں۔ وہیں سرکاری کاغذات دیکھتیں اور ہندوستانی کی مشق بھی کرتیں۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اس عرصے میں ملکہ ایسے تھیں جیسے کوئی بچہ گود لے لیا ہو اور اس کی دیکھ بھال کر رہی ہوں۔

یک نہ شد ’کئی‘ شد

ملکہ کو فکر کھائے جا رہی تھی کہ منشی عبدالکریم اپنے گھر والوں سے دور ہیں اور انھیں یاد کرتے ہوں گے۔ حکم ہوا کہ منشی کے اہلِ خانہ کو انگلستان لانے کا انتظام کیا جائے۔ اس طرح منشی کی اہلیہ، ساس، برادرِ نسبتی، بھائی، بہنوئی، پھوپھیاں، خالائیں اور بھتیجے بھی شاہی محل پہنچ گئے۔

منشی عبدالکریم کی پڑنواسی پروین بدر خان ماضی کے دریچوں میں جھانکتی ہیں ’ملکہ کو منشی کے گھر کی خواتین کے پردے کی خاص فکر تھی۔ میرے نانا عبدالرشید اور ان والدہ جب ونڈسر محل پہنچے تو گھوڑا گاڑی سے گھر تک راستے میں چادریں تان دی گئیں تھیں تاکہ پردے کی پابندی برقرار رہے۔ گھر میں بھی ریشمی پردے لگوا دیے گئے اور دیواریں اونچی کروادی گئیں۔‘

پروین بدر خان یاد کرتی ہیں کہ ملکہ وکٹوریا کو منشی کے اکلوتے بیٹے کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال تھا۔ ’عبدالرشید کو بالکل ویسی ہی تعلیم دی گئی جیسی ملکہ کے اپنے بیٹے اور جانشین شہزادہ ایڈورڈ کو دی گئی۔ عبدالرشید نے برطانیہ سے بیرسٹری کا امتحان بھی پاس کیا۔‘

مسلمانوں کی خیرخواہ ملکہ

مورخین متفق ہیں کہ اپنے زمانے کی روایت کے برخلاف ملکہ وکٹوریہ ذات پات، اونچ نیچ اور رنگ ونسل میں امتیاز نہیں رکھتی تھیں۔ مشہور ہے کہ محل میں حکم تھا کہ ہندوستانیوں کو 'کالے آدمی' نہ کہا جائے۔ چنانچہ ایک بار جب برطانوی وزیرِ اعظم نے بھری محفل میں یہ لفظ استعمال کیا تو انھیں معافی مانگنی پڑی۔

کتاب ’وکٹوریا اینڈ عبدل‘ کی انڈین نژاد برطانوی مصنفہ شرابانی باسو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’منشی عبدالکریم نے ملکہ کو یقین دلایا تھا کہ مسلمان ان کے وفادار ہیں۔‘

یاد رہے کہ سنہ 1857 کی جنگِ آزادی کو گذرے ابھی 30 برس بھی نہیں ہوئے تھے اور انگریز حکام مسلمانوں کو اس بغاوت کا ذمہ دار ٹھراتے تھے۔ مسلمانوں کے خلاف اس تعصب کے باوجود ملکہ وکٹوریا نے ہندوستانی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کردی۔

انھوں نے وائسرائے کو خط لکھے اور پوچھا کہ آگرہ میں ہندو مسلم فسادات کیوں ہو رہے ہیں اور ان کو روکنے کے لیے کیا کیا جا رہا ہے۔ شرابانی باسو نے مزید بتایا کہ ملکہ وکٹوریا نے احکامات دیے کہ محرم میں فسادات روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ اس کے علاوہ وہ صوبائی اسمبلیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی بھی چاہتی تھیں۔

محلاتی سازشیں



جیسے جیسے منشی عبدالکریم ملکہ وکٹوریہ کے قریب ہوتے گئے آس پاس کے تمام لوگ، محل کا عملہ اور شاہی خاندان ان کا مخالف ہو گیا۔ محل کے ہندوستانی ملازموں نے منشی کی برائی کرنا شروع کر دی کیونکہ وہ بھی ان کی ترقی سے حسد کرنے لگے تھے۔

محل کا تمام انگریز عملہ بھی باغی ہو گیا اور اجتماعی استعفے کی دھمکی دے ڈالی۔ سرکاری اور غیرسرکاری تقریبات میں انگریز حکام جان بوجھ کر منشی کی کرسی ملازمین کے ساتھ لگواتے جب وہ اس پر احتجاج کرتے تو ملکہ منشی کا ساتھ دیتیں اور کہتیں کہ ان کا رتبہ ملازمین سے بلند ہے۔

مصنف رضا علی عابدی نے بی بی سی کو بتایا کہ ملکہ کے بیٹے شہزادہ ایڈورڈ، جو وکٹوریہ کے بعد بادشاہ بنے، منشی کی مخالفت میں سب سے آگے تھے۔ وہ منشی سے اس حد تک نفرت کرتے تھے کہ ایک بار انھوں نے منشی کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر چائے پینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ شہزادہ ایڈّورڈ نے ملکہ کے ذاتی معالج سر جیمز ریڈ کے ساتھ مل کر دھمکی دی کہ اگر ملکہ نے منشی عبدالکریم کے لیے اپنی حمایت ختم نہیں کہ تو انھیں دماغی مریضہ قرار دے کر تخت سے سبکدوش کر دیا جائے گا۔

مصنفہ شرابانی باسو رضا علی عابدی سے اتفاق کرتی ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انگریز حکام منشی عبدالکریم کی وفاداری پر شک کرتے تھے۔ انھوں نے منشی پر امیرِ افغانستان کے لیے مخبری کا بھی الزام لگایا اور جب وہ چھٹیوں پر ہندوستان گئے تو ان کی جاسوسی کی گئی۔

منشی عبدالکریم کے خاندانی واقف کار سید اقبال حسین کہتے ہیں کہ ملکہ ہر مشکل میں ثابت قدم رہیں اور منشی کو مکمل تحفظ دیا۔ وہ آخر وقت تک منشی عبدالکریم کے ساتھ کھڑی رہیں۔

’سر‘ کا خطاب جو ملتے ملتے رہ گیا

منشی عبدالکریم کا ملکہ وکٹوریا پر اثرو رسوخ بڑھا تو وہ بھی ملکہ سے اپنی من مانی باتیں منوانے لگے۔ ملکہ بھی کم ہی ان کی کوئی فرمائش رد کرتیں۔ ایک بار انھوں نے ملکہ سے کہا کہ انھیں 'نواب' کا خطاب دیا جائے لیکن ملکہ ٹال گئیں۔

ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک زمانے میں وہ منشی کو 'سر' کا خطاب دینے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہی تھیں لیکن مخالفت کے خوف سے ارادہ تبدیل کر دیا۔ اس کے بجائے انھوں نے منشی عبدالکریم کو 'کمپینین آف دی آرڈر آف دی انڈین امپائر' (سی آئی ای) اور ’کمانڈر آف دی رائل وکٹورین آرڈر‘ (سی وی او) کے اعزازات عطا کیے۔

سنہ 1890 سے ملکہ وکٹوریا نے منشی عبدالکریم کے لیے ہندوستان میں جاگیر الاٹ کرانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ ملکہ کی خواہش تھی کہ ان کی موت کے بعد عبدالکریم کے لیے مستقل آمدنی کا ایک ذریعہ ہونا چاہیے۔ مسلسل کوششوں کے بعد وائسرائےِ ہند لارڈ لینس ڈاؤن نے آگرہ کے پاس زمین تلاش کر کے منشی عبدالکریم کے نام کر دی۔

منشی کے پڑپوتے مظہر سعید بیگ یاداشت پر زور دے کر بتاتے ہیں: ’ہماری نانی کہا کرتی تھیں کہ ان کی آگرہ سے 50 کلو میٹر دور متھرا میں زمینیں تھیں۔ ممکن ہے کہ یہ وہی جاگیر ہو جو ملکہ وکٹوریا نے منشی عبدالکریم کے لیے الاٹ کرائی تھی۔‘

مظہر سعید بیگ کی بہن پروین بدر خان بتاتی ہیں ’میں نے یہ بھی سنا تھا کہ ملکہ وکٹوریا نے ایک خط دیا تھا کہ یہ تمھاری سات پشتوں کے لیے ہے۔ تمھارے خاندان میں سے کسی کو کبھی بھی کوئی ضرورت ہو تو وہ یہ خط لے کر حاکمِ وقت کے پاس شاہی دربار پہنچے۔‘

 

منشی کا زوال



22 جنوری سنہ 1901 کو ملکہ وکٹوریا کا 81 برس کی عمر میں انتقال ہوا تو ساتھ ہی شاہی محل میں منشی عبدالکریم کا اقتدار بھی ختم ہوا۔ نئے بادشاہ ایڈورڈ ہفتم کے حکم پر ونڈسر میں ان کے فروگمور کاٹج پر الاؤ روشن کیا گیا اور اس میں منشی کے کاغذات، ملکہ کے خطوط اور نایاب تصاویر جلا دی گئیں۔

شاہ ایڈورڈ نے یہ احسان ضرور کیا کہ منشی کو اپنی مرحوم ماں کا آخری دیدار کرنے کی اجازت دے دی۔ منشی عبدالکریم کے خاندان کے پرانے واقف کار سیّد اقبال حسین بتاتے ہیں کہ ملکہ کا تابوت بند ہونے سے پہلے منشی وہ آخری شخص تھے جنھوں نے وکٹوریا کا چہرہ دیکھا۔

ملکہ کی تدفین کے فوراً بعد ایڈورڈ ہفتم نے منشی عبدالکریم، ان کے خاندان کے افراد اور محل کے تمام ہندوستانی ملازموں کو، جن میں اکثریت آگرہ کے مسلمانوں کی تھی، ہندوستان واپس بھیج دیا۔ منشی کے پڑنواسے قمر سعید بیگ یاد کرتے ہیں: 'ہمارے بڑے بتاتے تھے کہ انگریز حکام نے منشی عبدالکریم کے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔ یکایک انھیں ہندوستان واپس بھیج دیا گیا اور وطن واپسی پر بھی ان پر سختیاں کی گئیں۔'

ہندوستان واپسی

منشی عبدالکریم نے بقیہ زندگی اپنے آبائی شہر آگرہ میں خاموشی سے گزاری۔ انھوں نے اپنے انگلستان کے گھر کی طرز پر شاندار بنگلہ بنوایا اور اس کا نام 'کریم لاج' رکھا۔ قمر سعید بیگ اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں: 'کریم لاج مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک بہت بڑا ڈرائنگ روم تھا جہاں ملکہ کی طرف سے دیے گئے تحفے تحائف رکھے ہوتے تھے۔ اپنے بچپن میں ہم وہاں جا کر یہ سب چیزیں دیکھا کرتے تھے۔‘

پروین بدر خان بھی اپنی یادوں کو دہراتی ہوئے بتاتی ہیں: 'میں نے اپنی آنکھوں سے ایک چھڑی دیکھی تھی جس میں یاقوت جڑے تھے۔ ٹھوس سونے کے بنے ٹی سیٹ بھی تھے جبکہ ملکہ کے ہاتھ سے دستخط کردہ تصاویر بھی خاندانی نوادرات کا حصہ تھیں۔'

پردہ گرتا ہے

ملکہ وکٹوریا کے انتقال کے صرف آٹھ سال بعد سنہ 1909 میں منشی عبدالکریم بھی چل بسے۔ انھیں آگرہ کے پچ کویاں قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ایڈورڈّ ہفتم اب بھی تخت پر موجود تھے۔ حکم ہوا کہ منشی کے ورثا کے پاس ملکہ وکٹوریا سے متعلق جو دستاویزات رہ گئی ہیں وہ بھی ضائع کر دی جائیں۔

وائسرائے لارڈ منٹو نے درخواست کی کہ منشی کی بیوہ کو ملکہ کے چند ذاتی خطوط رکھنے کی اجازت دی جائے۔ یہ اجازت اس شرط پر ملی کہ عبدالکریم کی بیوی کی موت کے بعد یہ خطوط بھی تلف کر دیے جائیں۔ البتہ منشی کی بیوہ رشیدن بیگم کو آخر عمر تک حکومتِ برطانیہ کی طرف سے پینشن ملتی رہی۔

پاپولر کلچر

ایک عرصے تک انگریز مورخین منشی عبدالکریم کے ذکر سے کتراتے رہے۔ ان کی پڑنواسی پروین بدر خان بتاتی ہیں ’منشی عبدالکریم کے بارے میں منفی کتابیں بھی بہت لکھی گئیں۔ برطانیہ میں منشی بدنام تھے۔‘

برِصغیر میں 20 ویں صدی کے اوائل میں نامور مصنف عظیم بیگ چغتائی نے بچوں کے مقبول رسالے ’پھول‘ میں منشی پر مضمون لکھا۔ کراچی سے شائع ہونے والے ادبی جریدے ’افکار‘ نے بھی سنہ 1981 میں منشی عبدالکریم پر ایک مقالہ شائع کیا۔

سنہ 2000 میں معروف براڈ کاسٹر رضاعلی عابدی نے ’ملکہ وکٹوریا اور منشی عبدالکریم‘ کے نام سے کتاب لکھی جبکہ انڈین نژاد برطانوی مصنفہ شرابانی باسو کی کتاب ’وکٹوریا اینڈ عبدل‘ سنہ 2010 میں شائع ہوئی۔ اسی نام سے بننے والی فلم، جو سنہ 2017 میں ریلیز ہوئی، میں انڈین اداکار علی فضل نے منشی کا کردار ادا کیا جبکہ برطانوی اداکارہ جوڈی ڈینچ ملکہ وکٹوریا کے کردار میں نظر آئیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’چینل فور‘ نے بھی منشی عبدالکریم اور ملکہ وکٹوریا کی کہانی کو فلمایا جو سنہ 1984 میں ’دی ایمپریس اینڈ دی مُنشی‘ کے نام سے نشر ہوا۔ اس ٹی وی فلم کے مصنف انڈین نژاد برطانوی مصنف فرخ ڈھونڈی تھے جبکہ پاکستانی اداکار ضیا محی الدین منشی عبدالکریم کے روپ میں نظر آئے۔

پروین بدر خان کہتی ہیں کہ منشی عبدالکریم پر بننے والی فلم اور حالیہ کتابیں آنے کے بعد ان کا رتبہ بحال ہوا ہے۔

’ہمارے پورے خاندان نے سنیما جا کر فلم دیکھی کہ معلوم کیا جائے کہ فلم میں کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہے لیکن فلم حقیقت سے کافی قریب تھی۔ منشی عبدالکریم کا کردار نبھانے والے اداکار علی فضل نے اپنے کردار سے انصاف کیا ہے جو کچھ ہم بچپن سے سنتے آئے تھے، وہ سب فلم میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔‘

منشی کا خاندان اب کہاں ہے؟

منشی عبدالکریم کے پڑنواسے قمر سعید بیگ تاریخ کے صفحوں کو پلٹتے ہیں: ’تقسیمِ ہند کے وقت جب منشی عبدالکریم کے تقریباً پورے خاندان کو انڈیا سے بھاگنا پڑا تو اکثر دستاویزات، تصاویر اور نوادرات اِدھر اُدھر ہو گئے۔‘ تاہم سنہ 1887 سے سنہ 1897 تک کے دس سالوں کے دوران لکھی گئی منشی عبدالکریم کی ذاتی ڈائری اب بھی خاندان کے پاس محفوظ ہے۔

قمر سعید بیگ کی بہن پروین بدر خان بتاتی ہیں کہ آج منشی عبدالکریم کے پڑپوتے، پڑپوتیاں، پڑنواسے، پڑنواسیاں اور ان کی اولادیں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان میں سے اکثر پاکستان، انڈیا، امریکہ، کینیڈا، فرانس، برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ میں رہائش پذیر ہیں۔ ’افسوس کہ ہمارے خاندان کی نئی نسل یعنی ہماری اولادوں کو خاندانی ورثے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 132 سال پہلے جو کچھ بھی ہوا وہ اب ماضی کا حصہ ہے اور اس کا حال سے کوئی تعلق نہیں۔‘

لیکن تاریخ سے منھ موڑنا کچھ اتنا آسان بھی نہیں شاید یہی وجہ ہے کہ جہاں ونڈسر میں منشی عبدالکریم کے فروگمور کاٹیج کو برطانوی تخت کے چھٹے وارث شہزادہ ہیری نے اپنی رہائش گاہ بنانے کا فیصلہ کیا وہیں سکاٹ لینڈ کے بالمورل قلعے میں ’کریم کاٹیج‘ آج بھی موجود ہے۔

جس ملکہ نے سوا صدی پہلے اپنے وفادار ہندوستانی ملازم کے لیے کریم کاٹیج بنایا اسی وکٹوریا کی لکڑ پوتی الزبتھ نے سنہ 2014 میں اس تاریخی گھر کو شاہی خاندان سے لے کر عوام کے حوالے کردیا۔

اب ہر کوئی شاہی رہائش اختیار کرنے کا خواب پورا کر سکے گا اگر دل کرے اور آپ بھی ان در و دیوار کے ساتھ وقت گزارنا چاہیں جہاں کبھی ملکہ وکٹوریا اور منشی عبدالکریم رہا کرتے تھے تو بالمورل محل کی ویب سائٹ پر جائیں اور ہزار پاؤنڈ دے کر پورا گھر ہفتے بھر کے لیے کرائے پر لے لیں۔

کیا پتہ ملکہ وکٹوریا اور منشی عبدالکریم کی روح آج بھی وہاں آتی ہو۔ منشی ملکہ کو اردو کا درس دیتے ہوں اور ہندوستان کی کہانیاں سناتے ہوں۔ ملکہ بھی کسی معصوم بچی کی طرح ان سے اپنے دل کی باتیں کرتی ہوں اور منشی کے حاسدوں کے سینے پر مونگ دلتی ہوں۔

 

 

 


Comments

Popular posts from this blog

Harrr Aikk BAtt Pr Khety Ho TumM Ki Kia Haye TuM Kahu Kii AndAz GhuftoGo KIA Hye Urdu Ghazal

  ہر ایک بات پر کہتے ہو تم کی تم کیا ہے ۔ تم کہو کی تم اندازِ گفتگو کیا ہے کوئی باتو کی وو شوہ ٹنڈ-ہو کیا ہے تم رشک ہے کی وو ہوتا ہے ہم سوہان تم سے وگرنا ہوفِ بدِ آموزِ عدو کیا ہے جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا ۔ ہو جو اب جب آنکھوں سے نہ تپکا تو پھر لہو کیا ہے۔ وو چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز سیوا بدا گلفام مشک بو کیا ہے پیون شراب آگر ہم بھی دیکھ لو دو چار تم شیشہ او قضا اور کوزہ یا سب کیا ہے راہی نہ تختِ گفتار اور آگر ہو بھی کس امید پر کہیے کی آرزو کیا ہے؟ ہوا ہے شاہ کا مصاحب پھر ہے سفر واگرنا شہر میں 'حلب' کی آبرو کیا ہے

KuchH Syy HoVa Bhi SarD Thi Kucchh Tha Tera Hawal Bh Dil Ko KHushi Ky Sath Sath Ho Tar Ha Milal Bhi Urdu Ghaza;l

  کچھ سے ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا تیرا ہوال بھی دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی بات وو آدھی رات کی رات وو پوری چانڈ کی چاند بھی عین بات ہے ہمیں تیرا جمال بھی سب سے نظر بچا کے وو مجھ کو کچھ ایسا دیکھتا ہے۔ ایک دفا سے رکو گا. گارڈیش-ماہ-سال بھی دل سے چمک سکوں گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ لینا شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی ہم کو نہ پا کے جب دل کا آجیب حال تھا۔ اب جو پلٹ کے دیکھئے بات تھی کچھ محل بھی میری طالب تھا ایک شاہس وو جو نہیں ملا تو پھر ہاتھ دعا سے یون گرا بھول گیا سوال بھی گاہ قریب شاہ راگ گاہ بعید وہم واحباب پر روح کے اور جال بھی شام کی نا سماج ہاوا پوچھ رہی ہے ایک پتا

Sar Mainn Sodaa Bhi Nahin DiL Mainn Tamnaa Bhi Nahin Lakin Tak E Muhabat Ka Bhrosa Bhi Nahin Haii Urdu Ghazal

  سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں لیکِن ترکِ محبت کا بھروسہ بھی نہیں ہے۔ لیکن ہمیں جلوہ گاہ ناز سے اٹھا بھی نہیں مہربانی کو محبت نہیں کہتے ہیں دوست آہ اب مجھ سے تیری رنگیش-بیجا بھی نہیں ہے۔ اور ہم بھول گئے ہیں تمھیں ایسی بھی نہیں آج حفلت بھی ان انکھوں میں ہے پہلے سے سیوا آج ہی ہشتیرِ بیمار شکیبہ بھی نہیں بات یہ ہے کہ سکھوں دل وحشی کا مقام کنجِ زنداں بھی نہیں وُس۔اتِ سحر بھی نہیں ہیں سید ہمین گل ہیں ہمین بلبل ہیں۔ تم نے کچھ نہیں سنا بھی نہیں دیکھا بھی نہیں۔ آہ یہ مجمع احباب یہ بزمِ ہموش آج محفل میں 'فراق' سُہان آرا بھی نہیں تم بھی سچ ہے کی محبت پہ نہیں میں مجبور تم بھی سچ ہے کہ تیرا حسین کچھ ایسا بھی نہیں فطرتِ حسن سے عالم ہے تجھے ہمدم چرا ہی کیا ہے با جوز صبر تو ہوتا بھی نہیں مجھ سے ہم اپنے بورے سے نہیں کہتے کہ 'فراق ' ہے تیرا دوست مگر آدمی ہے اچھا بھی نہیں احزاب کیا ٹائر وڈے پہ احتساب کیا ۔ تمام رات قیام کا انتظار کیا ۔ کسی تارہ جو نہ ہم پر نہ احتساب کیا ۔ میری وفا نہ مجھ سے ہوب شرمسار کیا ہنسا ہنسا کے شب وصل اش