ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی''
لیجئے فرصت ہی فرصت ہو گئی
کون سمجھائے در و دیوار کو
جن کو تیرے دید کی لت ہو گئی
ہم نہیں اب بارشوں کے منتظر
اب ہمیں صحرا کی عادت ہو گئی
سرحدوں کی بستیوں سا دل ہوا
وحشتوں کی جن کو عادت ہو گئی
ساحلوں پر کیا گھروندوں کا وجود
ٹوٹنا ہی ان کی قسمت ہو گئی
راحتوں کی بھی طلب باقی نہیں
درد سے ایسے محبت ہو گئی
نینا
سحر
Comments
Post a Comment