Skip to main content

Chalo Ik Bar Phir Apni Unhi Gabron Ki Janib Lot Jaen Hum Jahaan Es Hashr E Be Dawar Se Pehle Neend ki Sadyan Guzari Theen Hassan Akhter Jalil

 مراجعت

چلو اک بار پھر اپنی انہیں قبروں کی جانب لوٹ جائیں ھم

جہاں اس حشر بے داور سے پہلے

نیند کی صدیاں گزاری تھیں



چلو پھر اپنے کفنوں میں لپٹ جائیں

لحد کی خاک چہروں پر بکھیریں اور سو جائیں

سوا نیزے پہ سورج ھے

مگر اب تک ھماری تشنہ کامی نے

میان عرصئہ محشر،کہیں بھی چشمئہ کوثر نہیں دیکھا

کہیں میزان کی تنصیب کا منظر نہیں دیکھا

کسی ظالم کے بائیں ھاتھ اعمال کا دفتر نھیں دیکھا

سوا نیزے پہ سورج ھے


مگر وہ عدل کا دن، داد خواہی کی گھڑی اب تک نہیں آئی


چلو اک بار پھر اپنی انہیں قبروں کی جانب لوٹ جائیں ھم


کہ وہ اک کاروبار خسروی تھا اور ھم اسکو


کسی کے عہد یوم الدین کی تکمیل سمجھے تھے


وہ اک دجال کی آواز تھی جس کو


ھم اپنی سادگی صور اسرافیل سمجھے تھے


(حسن اختر جلیل)

Comments

Popular posts from this blog

Abb Chalakty Hoe Sagir Nhin Dakhy Jaty Tooba Ky Bad Ya Manzir Nhin Dakhy Jaty Urdu Ghazal By Ali Ahmed Jalili

  اب چھلکتے ہوئے ساغر نہیں دیکھے جاتے توبہ کے بعد یہ منظر نہیں دیکھے جاتے مست کر کے مجھے اوروں کو لگا منہ ساقی یہ کرم ہوش میں رہ کر نہیں دیکھے جاتے ساتھ ہر ایک کو اس راہ میں چلنا ہوگا عشق میں رہزن و رہبر نہیں دیکھے جاتے ہم نے دیکھا ہے زمانے کا بدلنا لیکن ان کے بدلے ہوئے تیور نہیں دیکھے جاتے علی احمد جلیلی  

Mat Qatal Kro Awazoon Ko Poem By Ahmad Faraz | Raaz Ki Batain | Khuwab Naak Afsane

مت قتل کرو آوازوں کو تم اپنے عقیدوں کے نیزے ہر دل میں اتارے جاتے ہو ہم لوگ محبت والے ہیں تم خنجر کیوں لہراتے ہو اس شہر میں نغمے بہنے دو بستی میں ہمیں بھی رہنے دو ہم پالنہار ہیں پھولوں کے ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں تم کس کا لہو پینے آئے ہو ہم پیار سکھانے والے ہیں اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے جب حرف یہاں مر جائے گا جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی جب شعر سفر کر جائے گا جب قتل ہوا سر سازوں کا جب کال پڑا آوازوں کا جب شہر کھنڈر بن جائے گا پھر کس پہ سنگ اٹھاؤ گے اپنے چہرے آئینوں میں جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے (احمد فراز)

Lyjati Hy Us Simat Hamy Gardish Doran Ay Dost Kharabat Sy Kia Kam Hamara Urdu Ghazal By Syed Abdul Hameed Adam

لے جاتی ہے اُس سمت ہمیں گردشِ دوراں اے دوست، خرابات سے کیا کام ہمارا کر لیتے ہیں تخلیق کوئی وجہِ اذیّت بھاتا نہیں خُود ہم کو بھی آرام ہمارا اے گردشِ دوراں یہ کوئی سوچ کی رُت ہے کمبخت ابھی دَور میں ہے جام ہمارا اِس بار تو آیا تھا اِدھر قاصدِ جاں خُود سرکار کو پہنچا نہیں پیغام ہمارا پہنچائی ہے تکلیف بہت پہلے ہی تُجھ کو اے راہ نُما، ہاتھ نہ اب تھام ہمارا اے قافلہء ہوش گَنوا وقت نہ اپنا پڑتا نہیں کُچھ ٹھیک ابھی گام ہمارا گُل نوحہ کُناں اور صنم دَست بہ سِینہ اللہُ غنی! لمحہء اَنجام ہمارا     سیّد عبدالحمید عدم