احبارِ تہیورِ عشق سن نہ جونِ راہ نہ پرِ راہی
شاہِ
بے ہُودی نی عطا کیا مجھے اب لباس برہنہگی
نا
جنُوں کی پردہ داری رہی
چلی
سمت-ای-ہیب سیاں کیا ہوا کی چمن ظہور کا جل گیا
مگر
ایک شاہِ نہالِ ہم جس دل کہو سو ہری راہی
کی
شرابِ صد قدہ آرزو ہم دل میں تھی اتنی بھری راہی
طائر
جوشِ غیرتِ حسن کا عصر ہے قدر سیاں یہ ہوا
کِیا
ہک آتشِ عشق نہ دل بے نوا سراج کو
نا
ہتر راہ نہ ہزار راہ مگر ایک بے ہتر راہی
نگری
نگری پھرا مصافیر گھر کا راستہ بھول گیا
کیا
ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا
کیا
بھولا کسے بھولا کیوں پوچھتے ہو بس یون سمجھو
کرن
دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھولا بھول گیا
آدمی
بولک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا ۔
اندھیرے
سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھ شرما.
دھونڈلی
چھب سے یاد رہی کسا تھا چھہڑا بھول گیا
یاد
کے پھیر میں آ کر دل پر ایسی کاری چوٹ لگی
ایک
نظر کی ایک ہی پال کی بات ہے
سوجھ-بوجھ
کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ
Comments
Post a Comment