Skip to main content

Sar Mainn Sodaa Bhi Nahin DiL Mainn Tamnaa Bhi Nahin Lakin Tak E Muhabat Ka Bhrosa Bhi Nahin Haii Urdu Ghazal

 سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں

لیکِن ترکِ محبت کا بھروسہ بھی نہیں ہے۔



لیکن ہمیں جلوہ گاہ ناز سے اٹھا بھی نہیں

مہربانی کو محبت نہیں کہتے ہیں دوست

آہ اب مجھ سے تیری رنگیش-بیجا بھی نہیں ہے۔

اور ہم بھول گئے ہیں تمھیں ایسی بھی نہیں

آج حفلت بھی ان انکھوں میں ہے پہلے سے سیوا

آج ہی ہشتیرِ بیمار شکیبہ بھی نہیں

بات یہ ہے کہ سکھوں دل وحشی کا مقام

کنجِ زنداں بھی نہیں وُس۔اتِ سحر بھی نہیں

ہیں سید ہمین گل ہیں ہمین بلبل ہیں۔

تم نے کچھ نہیں سنا بھی نہیں دیکھا بھی نہیں۔

آہ یہ مجمع احباب یہ بزمِ ہموش

آج محفل میں 'فراق' سُہان آرا بھی نہیں

تم بھی سچ ہے کی محبت پہ نہیں میں مجبور

تم بھی سچ ہے کہ تیرا حسین کچھ ایسا بھی نہیں

فطرتِ حسن سے عالم ہے تجھے ہمدم

چرا ہی کیا ہے با جوز صبر تو ہوتا بھی نہیں

مجھ سے ہم اپنے بورے سے نہیں کہتے کہ 'فراق'

ہے تیرا دوست مگر آدمی ہے اچھا بھی نہیں

احزاب کیا ٹائر وڈے پہ احتساب کیا ۔

تمام رات قیام کا انتظار کیا ۔

کسی تارہ جو نہ ہم پر نہ احتساب کیا ۔

میری وفا نہ مجھ سے ہوب شرمسار کیا

ہنسا ہنسا کے شب وصل اشک بار کیا

تسلیاں مجھے دے دے کے بیقرار کیا ۔

تم کس نے جلوہ ہمارے سرِ مزار کیا

کی دل سے شور اٹھا ہا، بے قرر کیا

سنا ہے تیرہ کو قتال نہ ابدار کیا

اگر تم سچ ہے تو ہو ہم پر وار کیا

شبِ وصال بھی مائیاں سے انتظار کیا

تجھے تو ودا دیدار ہم سے کرنا تھا ۔

تم کیا کیا جہان کو امید وار کیا

تم دل کو تب کہنا ہے کی ہو مال اندیش

کہاں کا سبر کی دام پر ہے بن گا ظلم

با تنگ آ تو حال دل اشکار کیا

تپ پھر اے دل نادان کی بات ہے

اہیر کچھ نہ بنی صبر احتیار کیا

میل جو یار کی شوہی سے ہمیں کی بیچینی

تم رات دلِ مظفر کو پیار کیا

بھولا بھولا کے جتایا ہے ان کو راز نہان

چھپا چھپا کے محبت کو اشکار کیا

نہ ہمیں کے دل سے مِتایا کی صاف ہو جاتی ہے۔

سبا نے ہک پریشاں میرا ہبر کیا

ہم ایسے مہ و نظر نہ جو ہوش آتا ہے۔

شبِ وصال بھی ہم کو نہ ہم کنار کیا ۔

رقیب او شیوا الفت ہُودا کی قدرت ہے

وو اور عشق بھلا تم نے احتساب کیا

زبانِ حار سے نکلی صداِ بسم اللہ

تیرِ نگاہ کے تساوور میں ہم نے آئی قتال

لگا لگا کے گلے سے چھوری کو پیار کیا

احزاب تھی کسرتِ محفل کی مَیں نہ دھوکے میں

ہزار بار راکیبوں کو ہم کنار کیا ۔

ہوا ہے کوئی مگر ہمیں کا چاہنے والا

نا پوچھ دل کی حقیقت مگر یہ کہتے ہیں؟

جب ان کو ترزِ ستم آ گا سے ہوش آیا

ہو دل کا بورے وقف ہوشیار کیا ۔

فسانہ شباب ہم ان کو ایک کہانی تھی

کچھ عتبار کیا کچھ نہ احتساب کیا

اسیری دلِ اشفتہ رنگ لا کے راہی۔

کچھ آ گا. داور محشر سے ہے امید مجھ سے

کچھ آپ نے میرا کہنا کا احترام کیا

کس کے عشق نہ میں تم بد گمانی تھی

فلک سے تور قیامت کے بن نہیں پڑتے

احر اب توجھے اشوبِ روزگار کیا

وو بات کر جو کبھی اسمان سے ہو نہ کے لیے

بنیگا مہر قیامت بھی ایک حل سیہ

جو چہرہ 'داح' سیاہ رو نے اشکار کیا

Comments

Popular posts from this blog

Abb Chalakty Hoe Sagir Nhin Dakhy Jaty Tooba Ky Bad Ya Manzir Nhin Dakhy Jaty Urdu Ghazal By Ali Ahmed Jalili

  اب چھلکتے ہوئے ساغر نہیں دیکھے جاتے توبہ کے بعد یہ منظر نہیں دیکھے جاتے مست کر کے مجھے اوروں کو لگا منہ ساقی یہ کرم ہوش میں رہ کر نہیں دیکھے جاتے ساتھ ہر ایک کو اس راہ میں چلنا ہوگا عشق میں رہزن و رہبر نہیں دیکھے جاتے ہم نے دیکھا ہے زمانے کا بدلنا لیکن ان کے بدلے ہوئے تیور نہیں دیکھے جاتے علی احمد جلیلی  

Mat Qatal Kro Awazoon Ko Poem By Ahmad Faraz | Raaz Ki Batain | Khuwab Naak Afsane

مت قتل کرو آوازوں کو تم اپنے عقیدوں کے نیزے ہر دل میں اتارے جاتے ہو ہم لوگ محبت والے ہیں تم خنجر کیوں لہراتے ہو اس شہر میں نغمے بہنے دو بستی میں ہمیں بھی رہنے دو ہم پالنہار ہیں پھولوں کے ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں تم کس کا لہو پینے آئے ہو ہم پیار سکھانے والے ہیں اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے جب حرف یہاں مر جائے گا جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی جب شعر سفر کر جائے گا جب قتل ہوا سر سازوں کا جب کال پڑا آوازوں کا جب شہر کھنڈر بن جائے گا پھر کس پہ سنگ اٹھاؤ گے اپنے چہرے آئینوں میں جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے (احمد فراز)

Lyjati Hy Us Simat Hamy Gardish Doran Ay Dost Kharabat Sy Kia Kam Hamara Urdu Ghazal By Syed Abdul Hameed Adam

لے جاتی ہے اُس سمت ہمیں گردشِ دوراں اے دوست، خرابات سے کیا کام ہمارا کر لیتے ہیں تخلیق کوئی وجہِ اذیّت بھاتا نہیں خُود ہم کو بھی آرام ہمارا اے گردشِ دوراں یہ کوئی سوچ کی رُت ہے کمبخت ابھی دَور میں ہے جام ہمارا اِس بار تو آیا تھا اِدھر قاصدِ جاں خُود سرکار کو پہنچا نہیں پیغام ہمارا پہنچائی ہے تکلیف بہت پہلے ہی تُجھ کو اے راہ نُما، ہاتھ نہ اب تھام ہمارا اے قافلہء ہوش گَنوا وقت نہ اپنا پڑتا نہیں کُچھ ٹھیک ابھی گام ہمارا گُل نوحہ کُناں اور صنم دَست بہ سِینہ اللہُ غنی! لمحہء اَنجام ہمارا     سیّد عبدالحمید عدم