Skip to main content

Humm Hii MaiinThii Naa Koii Baat YaaD Naa Tumm Ko Khatir Tum Ny Hamein Bhula Diyaa Humm Ny Tumhein Bhola Ky Liye Urdu Ghazal

 ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو خاطر

تم نے ہمیں بھولا دیا ہم نہ تمہیں بھولا کے لیے



تم ہی نہ سورج کے لیے آگر قصہ ہم سنانگا کون

کس کی زباں کھل گی پھر ہم نہ آگر سنا کے لیے

بزم کا رنگ دیکھ کر سر نہ مگر اچھا

راؤناق بزم بن گئی لیب پہ

دل میں سکھایاتے رہن لب نہ مگر ہلا کے لیے

شوق وصال ہے یہاں لب پہ سوال ہے یہاں

کس کی مجال ہے یہ ہم سے نظر ملا کے لیے

ایسا ہو کوئی نام بار بات پر کان دھر کے لیے

سورج کے یاقین کر کے جا کے انہی سنہ کے لیے

عجز سے اور بڈھ گئ برہمی-میزاز دوست

اب وو کرے علم دوست جس کی سمجھ میں آ کے

اہل ذبان سے ہیں بہت کوئی نہیں ہے اہل دل

کون تیری تارہ 'حافظ' درد کے گیت گا کے لیے

Comments

Popular posts from this blog

Abb Chalakty Hoe Sagir Nhin Dakhy Jaty Tooba Ky Bad Ya Manzir Nhin Dakhy Jaty Urdu Ghazal By Ali Ahmed Jalili

  اب چھلکتے ہوئے ساغر نہیں دیکھے جاتے توبہ کے بعد یہ منظر نہیں دیکھے جاتے مست کر کے مجھے اوروں کو لگا منہ ساقی یہ کرم ہوش میں رہ کر نہیں دیکھے جاتے ساتھ ہر ایک کو اس راہ میں چلنا ہوگا عشق میں رہزن و رہبر نہیں دیکھے جاتے ہم نے دیکھا ہے زمانے کا بدلنا لیکن ان کے بدلے ہوئے تیور نہیں دیکھے جاتے علی احمد جلیلی  

Mat Qatal Kro Awazoon Ko Poem By Ahmad Faraz | Raaz Ki Batain | Khuwab Naak Afsane

مت قتل کرو آوازوں کو تم اپنے عقیدوں کے نیزے ہر دل میں اتارے جاتے ہو ہم لوگ محبت والے ہیں تم خنجر کیوں لہراتے ہو اس شہر میں نغمے بہنے دو بستی میں ہمیں بھی رہنے دو ہم پالنہار ہیں پھولوں کے ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں تم کس کا لہو پینے آئے ہو ہم پیار سکھانے والے ہیں اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے جب حرف یہاں مر جائے گا جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی جب شعر سفر کر جائے گا جب قتل ہوا سر سازوں کا جب کال پڑا آوازوں کا جب شہر کھنڈر بن جائے گا پھر کس پہ سنگ اٹھاؤ گے اپنے چہرے آئینوں میں جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے (احمد فراز)

Lyjati Hy Us Simat Hamy Gardish Doran Ay Dost Kharabat Sy Kia Kam Hamara Urdu Ghazal By Syed Abdul Hameed Adam

لے جاتی ہے اُس سمت ہمیں گردشِ دوراں اے دوست، خرابات سے کیا کام ہمارا کر لیتے ہیں تخلیق کوئی وجہِ اذیّت بھاتا نہیں خُود ہم کو بھی آرام ہمارا اے گردشِ دوراں یہ کوئی سوچ کی رُت ہے کمبخت ابھی دَور میں ہے جام ہمارا اِس بار تو آیا تھا اِدھر قاصدِ جاں خُود سرکار کو پہنچا نہیں پیغام ہمارا پہنچائی ہے تکلیف بہت پہلے ہی تُجھ کو اے راہ نُما، ہاتھ نہ اب تھام ہمارا اے قافلہء ہوش گَنوا وقت نہ اپنا پڑتا نہیں کُچھ ٹھیک ابھی گام ہمارا گُل نوحہ کُناں اور صنم دَست بہ سِینہ اللہُ غنی! لمحہء اَنجام ہمارا     سیّد عبدالحمید عدم