کیا تشنگی میں بہت ہے کی ایک جام
ہاتھ
آ گیا ہے دولت بیدار کی ترہ
وو
تو کہیں ہے اور مگر دل کے آس پاس
پھرتی
ہے کوئی شائی نگاہِ یار کی تارہ
سیدھے
ہیں راہِ شوق پہ یہ کہاں کہاں
ہم
ہو گا ہے گیسو دلدار کی ترہ
ہر
نقش پا بلند ہے دیوار کی تارہ
اب
جا کے کچھ کھلا ہونا-ناہون-جون
زحم
جگر ہوا لب و رخسار کی ترہ
'مجروح' لکھ رہے ہیں وو اہل وفا کا نام
Comments
Post a Comment