Skip to main content

"Mar Ny Ki Dua" Tumm Duniya Hoo Ya Wo Ho Duniya Abb Ho Ahesh Duniya Kon Kry Jb Kshti Sabit Wa Salim Thi Sahil Ki Tamna Kis Ko Thi Urdu Ghazal..

 مارنے کی دعا

تم دنیا ہو یا وو دنیا اب ہواہیش دنیا کون کرے

جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی



اب ایسی شکست کاشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے

جو آگ لگا۔ تھی تم نے ہم کو سمجھنا اشکون نے

جو اشکون نے بھڑکا.ئی ہے ہمیں آگ کو ٹھنڈا کون کرے

دنیا نے ہمیں چھوڑھا 'جزبی' ہم چھوٹ نہ دینا کیوں دنیا کو

دنیا کو سمجھ کر بائی یہ ہے اب دنیا دنیا کون کرے

جاؤ زرا سی بات پر بارسواں کے یارانے گا

گرمی محفل فقہ ایک نظر مستانہ ہے ۔

اور وو ہوش ہے کی محفل سے دیوانے گا

مجھ سے پہلے ہمیں گلی میں میرے افسانے گا

ہم جہاں پہونچے ہمارے ساتھ ساتھ ویرانے گا

اب بھی ان یادوں کی حُشبُو زہن میں محفوظ ہے

بار ہا ہم جن سے گلزاروں کو مہکنے گا

کیا قیام ہے کی 'ہاتیر' کشتہ شب بھی ہم

Comments

Popular posts from this blog

Abb Chalakty Hoe Sagir Nhin Dakhy Jaty Tooba Ky Bad Ya Manzir Nhin Dakhy Jaty Urdu Ghazal By Ali Ahmed Jalili

  اب چھلکتے ہوئے ساغر نہیں دیکھے جاتے توبہ کے بعد یہ منظر نہیں دیکھے جاتے مست کر کے مجھے اوروں کو لگا منہ ساقی یہ کرم ہوش میں رہ کر نہیں دیکھے جاتے ساتھ ہر ایک کو اس راہ میں چلنا ہوگا عشق میں رہزن و رہبر نہیں دیکھے جاتے ہم نے دیکھا ہے زمانے کا بدلنا لیکن ان کے بدلے ہوئے تیور نہیں دیکھے جاتے علی احمد جلیلی  

Mat Qatal Kro Awazoon Ko Poem By Ahmad Faraz | Raaz Ki Batain | Khuwab Naak Afsane

مت قتل کرو آوازوں کو تم اپنے عقیدوں کے نیزے ہر دل میں اتارے جاتے ہو ہم لوگ محبت والے ہیں تم خنجر کیوں لہراتے ہو اس شہر میں نغمے بہنے دو بستی میں ہمیں بھی رہنے دو ہم پالنہار ہیں پھولوں کے ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں تم کس کا لہو پینے آئے ہو ہم پیار سکھانے والے ہیں اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے جب حرف یہاں مر جائے گا جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی جب شعر سفر کر جائے گا جب قتل ہوا سر سازوں کا جب کال پڑا آوازوں کا جب شہر کھنڈر بن جائے گا پھر کس پہ سنگ اٹھاؤ گے اپنے چہرے آئینوں میں جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے (احمد فراز)

Lyjati Hy Us Simat Hamy Gardish Doran Ay Dost Kharabat Sy Kia Kam Hamara Urdu Ghazal By Syed Abdul Hameed Adam

لے جاتی ہے اُس سمت ہمیں گردشِ دوراں اے دوست، خرابات سے کیا کام ہمارا کر لیتے ہیں تخلیق کوئی وجہِ اذیّت بھاتا نہیں خُود ہم کو بھی آرام ہمارا اے گردشِ دوراں یہ کوئی سوچ کی رُت ہے کمبخت ابھی دَور میں ہے جام ہمارا اِس بار تو آیا تھا اِدھر قاصدِ جاں خُود سرکار کو پہنچا نہیں پیغام ہمارا پہنچائی ہے تکلیف بہت پہلے ہی تُجھ کو اے راہ نُما، ہاتھ نہ اب تھام ہمارا اے قافلہء ہوش گَنوا وقت نہ اپنا پڑتا نہیں کُچھ ٹھیک ابھی گام ہمارا گُل نوحہ کُناں اور صنم دَست بہ سِینہ اللہُ غنی! لمحہء اَنجام ہمارا     سیّد عبدالحمید عدم