پنجاب رنگ - " بِلّا" آخری قسط از قلم ظفرجی شام 8 بجے شرفو مُسلّی کے ڈیرے سے لالی بخیریت بازیاب ہو گئ- پولیس نے شرفو کو مار مار کر دُنبہ بنا دیا- ایک اچھّے سیاسی ورکر کی طرح وہ ہر چھتّر پر " شیر اک واری فیر " کا نعرہ لگاتا رہا مجال ہے جو چوھدری کا نام تک لیا ہو- اس کا دو سطری بیان پاکستان پینل کوڈ کی کسی دفعہ سے نہ ٹکراتا تھا ... " کُڑی راہ بھُول کے آ گئ تھی ... ہم نے دِھی بھین سمجھ کے پناہ دے دی .... !!!" رات 10 بجے بِلّے کی ٹرالی دھول مٹّی اڑاتی سول ھسپتال پہنچی- سرکاری شفاخانے میں اس وقت لوڈشیڈنگ کا راج تھا- ھچکیاں لیتے بِلّے کو ٹرالی میں ہی چھوڑ کر ھاری لوگ ڈاکٹر کی تلاش میں دوڑے- ھسپتال کا چپّہ چپّہ چھانا گیا مگر ڈاکٹر کا اتّا پتہ نہ مل سکا- لے دے کے ایک ڈسپنسر میسّر آیا ، جس نے مدعا سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگایا اور کہا ... "پاٰئ مجھے ایس رولے سے دور ہی رکھو ... میرے نکّے نکّے بچّے ہیں !!! " تقریباً ساڑھے دس بجے چوھدری مبارک کی "خصوصی کوششوں" سے ڈاکٹر " بازیاب" ہو سکا- ٹرالی پر ...