ہ ہم کو جون کیا سکھلاتے ہو ہم پریشاں تم سے زیاد چاک کیئے ہیں ہم نے عزیزو چار غریب تم سے زیاد چک جگر محتاجِ رفو ہے آج سے دامن سرفِ لہو ہے ایک موسم تھا ہم کو راہ ہے شوق بہاراں تم سے زیاد احد وفا یاراں سے نیبہ جب ہمے آرماں تم سے سیوا تھا اب ہے پشیمان تم سے زیاد ہم بھی ہمیشہ قتل ہوا اور تم نے بھی دیکھا دور سے لیکین تم نہ سمجھنا ہم کو ہوا ہے جان کا نمبر تم سے زیاد جاو تم اپنے بام کی ہاتیر ساری لاواں شام۔ون کی کتڑ لو زحم کے مہر و ما سلامت جشنِ چراغاں تم سے زیاد دیکھ کے اُلجھن زلفِ دوتا کے کسے الجھ پڑتے ہیں ہوا سے ہم سے سیکھو ہم کو ہے یارو فکرِ نگراں تم سے زیاد زنجیر دیوار ہی دیکھی تم نے تو مجروح مگر ہم کچھ کچھ دیکھ رہے ہیں علم زندہ تم سے زیاد